کافکا کے شہر کا لاک ڈاؤن ہوچکا ہے

میں ماسک پہنے دریا کے کنارے کھڑا چارلس برج پر بسی تہذیب کو اجڑتا دیکھ رہا ہوں۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ محبتوں کو وفا کا لاک لگانے والے نہیں رہے بلکہ کرونا وائرس نے پورے چیک ریپبلک کا لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے۔

فرانز کافکا نے اپنے شہر کے بارے میں کہا تھا کہ پراگ آپ کو کہیں جانے نہیں دے گا، اس حسین ماں کے پنجوں میں بہت طاقت ہے۔ مگر اب پراگ کی روح میں رقصاں زندگی کرونا (کورونا) کی وبا کے پنجوں میں مقید ہے۔

میں شہر کے وسط سے گزرنے والے دریا کے اس کنارے کھڑا ہوں جہاں سے پہاڑ کی چوٹی پر تعمیر قرون وسطیٰ کا سے بڑ اقلعہ نظر آرہا ہے۔

دریا کے اس پار فرانز کافکا میوزیم اور جان لینن وال ہے جو سیاحوں کے دلوں کی ترجمانی کرنے والے حروف، نعروں اور ایڑھی ترچھی لکیروں سے مزین ہے۔

ان تک پہنچنے کے لیے تقریباً ساڑھے چھ سو سالہ قدیم چارلس برج جس کی تعمیر میں دودھ اور انڈوں کا استعمال بھی ہوا ہے، سے گزرنا پڑتا ہے۔

یہ پل نہیں بلکہ شاہکار ہے۔ اس کے سینے میں نجانے کتنی کہانیاں دھڑکتی ہیں اور کس کس کے قدموں کے نشان ثبت ہیں۔

یہ پریم کہانی کے آغاز اور پہلے بوسے میں سرشار معطر انسانی روح کا پُل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محض 500 میٹر مختصر رقبے پر مشتمل اس پُل پر گویا ایک تہذیب آباد ہے۔

یہاں آئے ہوئے سیاحوں کی زبانیں، بودوباش، رنگ، نسل، شہریت، زبانیں، عقیدے اور پیشے الگ ہیں لیکن زیست کے بوسیدہ لمحوں سے نجات پانا ان کے درمیان قدر مشترک ہے۔

یہ کسی راہگیر کے لیے محض دریا پار کرنے کا وسیلہ نہیں بلکہ کسی آرٹسٹ کے لیے کینوس، کسی موسیقار کے لیے سٹیج اور کسی جادوگر کے لیے کرتب گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

لیکن میں ماسک پہنے دریا کے کنارے کھڑا چارلس برج پر بسی تہذیب کو اجڑتا دیکھ رہا ہوں۔

پُل کے جنگلے کے پہلو میں کھڑے میری نظریں ان تالوں پر آکر جم چکی ہیں جن میں عاشق و معشوق کے محبت نبھانے اور ساتھ رہنے کے وعدے قید ہیں۔

محبوب قُفل الفت کی چابیاں ہمیشہ کے لیے دریا برد کر دیتے ہیں تاکہ ان کی محبت غالب کے اس شعر کی مجسم تصویر نہ بنے۔

تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد

تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا

ایک دفعہ میں نے ایک لڑکی کو تالے پر آنسو گراتے دیکھا تھا۔

لیکن جنگلے پر کسی نئے وعدے کا تالا نہیں پڑا ہے، ایسا نہیں ہے کہ محبتوں کو وفا کا لاک لگانے والے نہیں رہے بلکہ کرونا وائرس نے پورے چیک ریپبلک کا لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے۔

میں نے شہر کی ان تنگ اور خوبصورت گلیوں میں چہل قدمی کی جہاں کسی زمانے میں کندھے سے کندھا ملا کر چلنا پڑتا تھا۔ اب اتنی سنسان کہ سانس کی لرزش بھی سنائی دے سکتی ہے۔

شہر کے وسط میں فرانز کافکا اب بے بس مجسمے کی طرح ساکت کھڑا ہے۔

قبل از وبا فرانز کافکا کے مجسمے کے گرد دسیوں لوگ کھڑے مختلف زاویوں سے اپنی تصاویر لیا کرتے تھے اور اب فرانز کافکا بھی سستا رہے ہیں۔  

مرحوم امریکی مصنف ایلن لیوی نے کہا تھا: 'میری زندگی کا بڑا معجزہ یہ ہوگا کہ میں اکیسویں صدی میں ہر صبح پراگ میں سو کر اٹھوں۔'

وبا کے زمانے میں اب اس قسم کے خوابوں کی تعبیر نہیں ہوسکتی۔  کافکا کے شہر کا لاک ڈاؤن ہوچکا ہے۔


عبدالحئی کاکڑ صحافی ہیں اور پراگ میں مشال ریڈیو کے ساتھ منسلک ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا