پاکستان کے بڑے کتب خانوں میں شمار ہونے والا اسلام آباد میں واقع سعید بک بینک ایک روز سیل رہنے کے بعد عدالت سے حکم امتناع ملنے پر دوبارہ کھول دیا گیا۔
سعید بک بینک کو فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) نے پوائنٹ آف سیلز (پی او ایس) انٹیگریشن کی مبینہ خلاف ورزی پر نو ستمبر کو سیل کیا تھا۔
کتب خانے کے مالکان نے اس پر عدالت سے رجوع کیا تھا، جہاں سے حکم امتناع ملنے کے بعد 10 ستمبر کو اسے ڈی سیل کر دیا گیا۔
سعید بک بینک 1955 میں پشاور میں قائم ہوا تھا جس کے بعد اس کی ایک شاخ 1999 میں اسلام آباد میں کھلی۔
پی او ایس سسٹم ایک الیکٹرانک نظام ہے جسے ایف بی آر نے مخصوص دکانوں، ریستورانوں اور بڑے کاروباروں کے لیے لازمی قرار دیا ہے تاکہ ہر فروخت براہ راست ایف بی آر کے پورٹل پر رپورٹ ہو۔
اس نظام کے ذریعے حکومت کو ریئل ٹائم یعنی فروخت کا فوری ریکارڈ ملتا ہے۔ ایف بی آر پی او ایس سسٹم کو سیلز ٹیکس کی موثر وصولی کے لیے استمعال کرتا ہے۔
ایف بی آر کے ایک عہدے دار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سیل کرنے سے قبل سعید بک بینک کو پوائنٹ آف سیل انٹیگریشن کا نوٹس باقاعدہ طور پر جاری کیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ دکان صرف کتب ہی نہیں بلکہ دیگر اشیا بھی فروخت کرتی ہے، لہٰذا یہ پی او ایس انٹیگریشن کی پابند تھی۔
’چونکہ دکان پی او ایس کے ساتھ منسلک نہیں تھی، اسی لیے اسے سیل کیا گیا۔‘
ایف بی آر عہدے دار کے مطابق پاکستان کے تمام شہروں میں بڑے سٹیشنری سٹورز/سیکٹر اب تک غیر مطابقت (نان کمپلائنٹ) کا شکار ہیں یا سب سے زیادہ نظرانداز کیے گئے ہیں، حالانکہ ان کی فروخت کا حجم بہت زیادہ ہے۔
سعید بک بینک کے مالک احمد سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بھیجے گئے بیان میں بتایا کہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے تحت سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے لیے کتب اور سٹیشنری کی فروخت سیلز ٹیکس سے مستثنی ہیں۔
عدالت کو جمع کروائی گئی درخواست میں، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، موقف اختیار کیا گیا کہ پی او ایس انٹیگریشن کا اصل مقصد ٹیکس سپلائز کی نگرانی کرنا اور سیلز ٹیکس کی چوری کو روکنا ہے۔
درخواست کے مطابق جہاں ٹیکس کے قابل فروخت موجود ہی نہ ہو وہاں ’پی او ایس انسٹالیشن کی شرط غیر ضروری‘ ہے اور سیل کرنے کا انتہائی اقدام ’دائرہ اختیار سے باہر‘ ہے۔
سعید بک بینک کے مالک نے کہا ہے کہ وہ اس ضمن میں مزید قانونی چارہ جوئی کریں گے۔