'لگتا ہے دکان دار لاک ڈاؤن کی ساری کسر نکال رہے ہیں'

'مالی حالات ویسے ہی خراب ہیں، لوگوں کو تنخواہیں بھی نہیں ملیں اور اوپر سے یہ غیر معمولی مہنگائی،' لوگ رمضان میں پھل اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے پر پریشان۔

لاہور میں لوگ افطاری کے لیے خریداری کر رہے ہیں(ارشد چوہدری)

'میرے خاوند لاہور کی ایک شیشہ فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں۔ انہیں گذشتہ دو ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ پہلے روزے پر 1500 روپے لے کر ہفتے بھر کی سبزیاں اور پھل خریدنے بازار آئی ہوں۔

'سوچا تھا آج ہفتے بھر کی ضروری اشیا خرید لوں گی لیکن قیمتیں اتنی زیادہ بڑھا دی گئی ہیں جیسے دکاندار لاک ڈاؤن کے دوران دکانیں بند رکھنے کی کسریں نکال رہے ہوں۔'

یہ کہنا تھا مدینہ کالونی لاہورکی رہائشی فرحت سلیم کا، جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے مالی حالات ویسے ہی خراب ہیں، لوگوں کو تنخواہیں بھی نہیں ملیں اور اوپر سے یہ غیر معمولی مہنگائی، سمجھ نہیں آرہا رمضان کیسے گزرے گا؟

انہوں نے بتایا کہ سرکاری نرخ کا تو علم نہیں لیکن لیموں کی قیمت 600 روپے کلو ہو چکی ہے، کیلا فی درجن 150 سے 180 روپے، سیب 250 سے 300 روپے کلو اور خربوزے 150 سے 200 روپے کلو تک فروخت ہورہے ہیں۔

انہوں نے شکایت کی کہ سبزیوں کے ریٹس کو بھی پر لگ گئے ہیں۔ آلو 50 سے 70 روپے، پیاز 70 روپے،ٹماٹر 60 روپے کلو تک فروخت ہو رہے ہیں۔

پھلوں اور سبزیوں کے سرکاری نرخ

مارکیٹ کمیٹی لاہور کے سرکاری نرخ ناموں کے مطابق لاہور میں کھجور 240سے 245، مالٹا 125سے 155روپے،انگور220سے 225،کیلا 135روپے درجن،سیب 155سے 160روپے، کلوخربوزہ 42سے62روپے کلو، سٹرابیری 100روپے کلو، امرود 80روپے کلو میں فروخت کرنے کی اجازت ہے۔

سبزیوں میں آلو اور پیاز 40 روپے کلو، لیموں 200روپے کلو تک،ٹماٹر40 روپے کلو تک، میتھی 50 روپے کلو،بھنڈی 100روپے کلو تک فروخت کرنے کی شرط رکھی گئی ہے لیکن خریداروں کے مطابق دکان دار ان سرکاری نرخوں کی پرواہ نہیں کر رہے بلکہ من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دکان دار محمد افضل نے انڈپینڈنٹ اردو سے  گفتگو میں تسلیم کیا کہ مارکیٹ میں سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کی وجہ صرف منافع خوری نہیں بلکہ دکان داروں کے اخراجات میں اضافہ اور منڈیوں میں اشیا کی قیمتیں بڑھ جانا  بھی ہے۔

افضل کے مطابق دوسری بات یہ کہ لاک ڈاؤن کے دوران  کاروبار متاثر ہوئے، اب رمضان میں دوبارہ سے ابتدا ہوئی ہے لہذا اس کے بھی اثرات ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ گاہک بہتر اشیا لینا پسند کرتے ہیں تو اچھی چیز مہنگے داموں ہی ملے گی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ سرکاری نرخ نامے میں سبزیوں اور فروٹ کی قیمتیں کم ہیں تو زیادہ کیوں وصول کی جاتی ہیں؟انہوں نے کہا کہ سرکاری نرخ نامے درمیانے درجے کی اشیا کو مد نظر رکھتے ہوئے مقررہوتے ہیں جبکہ بہترین اور اعلیٰ درجے کی اشیا ملتی بھی مہنگی ہیں اور فروخت بھی مہنگی ہوتی ہیں۔

'جو اشیا بچ جاتی ہیں وہ اگلے دن گل سڑ جاتی ہیں، یہ نقصان بھی دکان دار کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پھر اس بار رمضان بازار بھی نہیں لگائے گئے جس کا سارا دباؤ اب بازاروں پر ہے لہٰذا طلب پورا کرنے کے لیے زیادہ اشیا لانا پڑتی ہیں۔'

حکومتی اقدامات

صوبائی فوڈ سپلائی اینڈ مارکیٹنگ اتھارٹی کے چیئرمین نوید انور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کرونا وبا کے دنوں سے یہ بات یقینی بنا رہی تھی کہ منڈیوں میں اشیا کی قلت پیدا نہ ہو، اس میں کامیابی ملی اور اب رمضان شروع ہوتے ہی منڈیوں میں نہ صرف اشیا کی دستیابی کو یقینی بنایا جا رہا ہے بلکہ قیمتوں کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ بازاروں میں اشیا کی قیمتیں غیر معمولی بڑھ گئی ہیں تو اس بارے میں کیا کام ہوا؟انہوں نے جواب دیا کہ رمضان میں اشیائے خوردونوش خاص طور  پر سبزی اور فروٹ کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے اس لیے طلب بڑھنے کے باعث قیمتیں بھی تھوڑی بہت زیادہ ہو جاتی ہیں۔

'دوسرا یہ کہ حکومت اپنی مقرر کردہ قیمتوں پر اشیا کی فروخت کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے لیکن یہ عمل وسیع پیمانے پر تسلسل سے ہونا چاہیے تاکہ بازاروں میں پرائس کنٹرول اہلکار چیک کرتے رہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں لیکن ہمارے پاس پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کم ہیں اس لیے بروقت اور موثر کارروائی نہیں ہو پاتی۔

انہوں نے بتایا کہ اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کرنے کے لیے پرائس کنٹرول اتھارٹی بنا کر مجسٹریٹ اور اہلکاروں کی تعداد میں اضافے کی حکمت عملی بنائی جارہی ہے، جس پر کام جلد مکمل ہوجائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان