شام میں خانہ جنگی کا نواں سال: ’لوگ مر رہے ہیں یا انتہائی تکلیف میں ہیں‘

‘انقلاب ختم نہیں ہوا۔ میں ایک مرتبہ بے گھر ہو چکا ہوں اور اگر دوبارہ بھی بے گھر ہوا تو میرا انقلاب پر یقین برقرار رہے گا کیونکہ یہ میرے دل میں ہے۔’

تصویر: اے ایف پی

شام میں خانہ جنگی نویں سال میں داخل ہو چکی ہے اور ملک کے شمالی علاقے میں لاکھوں لوگوں پر تشدد کی نئی لہر کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ 

پچھلے سال شامی حکومت نے جنوب میں باغیوں کے زیر اثر علاقوں کا کنٹرول واپس لیتے ہوئے صدر بشار الاسد کی پوزیشن مستحکم کی تھی۔

مسلح اپوزیشن صوبہ ادلیب اور حلب کے کچھ حصوں تک محدود رہ گئی ہے۔

ایسے میں جہادی گروہ حیات تحریر الشمس اپنے قدم جمانے کے بعد روسی حمایت یافتہ شامی فوج سے پنجہ آزمائی کے لیے تیار نظر آتا ہے۔

شامی فوج کا کہنا ہے کہ وہ حیات تحریر الشمس کے بڑھتے حملوں کا جواب دی رہی ہے۔ ماضی میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے اس گروہ کو برطانیہ دہشت گرد جماعت قرار دے چکی ہے۔

دوسرے باغی گروہوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد حیات تحریر الشمس ادلیب میں کنٹرول کے ساتھ ساتھ علاقے میں بارڈر کراسنگ پر کنٹرول رکھے ہوئے ہے۔

قدم جمانے کے باوجود یہ گروہ صدر بشار الاسد کے خلاف بغاوت جیسی صورتحال کا شکار ہے کیونکہ اس کی بدنام زمانہ سکیورٹی  برانچ انقلاب کے لیے جمہوری سوچ کا مطالبہ کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ کر رہی ہے۔

گروپ پر عسکریت پسندوں کے خلاف آواز اٹھانے والے رعید فارس اور حمود نید سمیت متعدد مشہور سماجی کارکنوں کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام بھی عائد ہے۔

ادلیب کے ’محفوظ‘ علاقوں میں شامی حکومت اور روسیوں کے حملے میں سینکڑوں ہلاکتوں کے بعد تقریباً 40 ہزار شہری لڑائی سے بچنے کی خاطر اپنے گھروں سے نقل مکانی کر گئے ہیں۔

30 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل صوبے ادلیب کی آدھی آبادی ملک کے دوسرے علاقوں میں پناہ لے چکے ہیں اور امداد فراہم کرنے والے گروپ پناہ گزین کیمپوں پر شدید دباؤ کے حوالے سے خبردار کر رہے ہیں۔

ادلیب میں سرگرم امدادی  تنظیم ’اسلامک ریلیف‘ کے سربراہ ناصر آغا حامد نے بتایا: ’ادلیب میں بے چینی کی لہر شدید ہو گئی ہے اور صحت کے مراکز کی زبردستی بندش اور نتیجتاً علاج میسر نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں یا انتہائی تکلیف میں ہیں۔‘

’ایک مرتبہ پھر شدید تکلیف کے شکار شہری چاروں طرف سے حملوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس سے قطعہ نظر کہ وہ کہاں اور کس کے زیر کنٹرول ہیں، لوگوں کو زندگی بچانے کی سہولیات تک رسائی ہونی چاہیے اور عالمی اداروں کو چاہیے کہ وہ بحران کے شکار لوگوں تک امداد کی فراہمی یقینی بنائیں‘۔

تاہم، کالعدم گروہ کے زیر کنٹرول سرحد سے صوبہ ادلیب میں امداد بھیجنے کی صورت میں امدادی ادارے جان لیوا حملوں کے ساتھ ساتھ قانونی مشکلات میں پھنس سکتے ہیں۔

روسی اور شامی حکومت نے بدھ کو ادلیب کے نواح اور شہر میں بدترین بمباری کی جس کی کئی ہفتوں میں مثال نہیں ملتی۔

حلب کے عبدالکافی الحمدو نے، جو ادلیب میں یونیورسٹی لیکچرار ہیں، بتایا کہ صورتحال انتہائی خوف ناک ہے اور شہر میں ہر جگہ بمباری ہو رہی ہے۔

’یہ گنجان شہر ہے، جس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہو گی، یہاں لوگ انتہائی خوف زدہ اور پریشانی ان کے چہروں سے عیاں ہے‘۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کئی شہریوں کا خیال ہے کہ ادلیب میں حکومتی فورسز کی کارروائی ناگزیر ہو چکی ہے۔ گذشتہ سال ترکی اور روس کے درمیان ایک معاہدے کے بعد صوبے پر دوبارہ حکومتی کنٹرول کا منصوبہ روک دیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ادلیب میں بڑے پیمانے پر فوجی جارحیت ’اکیسویں صدی کے بد ترین انسانی المیہ کو جنم دے گا‘۔

شامی فورسز کی بھرپور جارحیت روکنے کے لیے ادلیب میں اپنی فوج تعینات رکھنے والے ترکی نے امید ظاہر کی ہے کہ روس سے معاہدہ اتنا وقت ضرور فراہم کر دے گا کہ دمشق اور باغی فورسز کے درمیان کوئی معاہدہ طے پا جائے۔

تاہم، اب علاقے میں حیات تحریر الشمسی کے بڑے غلبے سے کسی معاہدے کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔

دی انڈیپنڈنٹ سے گفتگو میں ادلیب کے شہری ہاذا نے کہا’ ہم اس گروپ کے خلاف بات کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ یہاں جمہوریت کی بات کرنے والا مجرم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ڈر ہمیں شام اور روس کی بمباری سے ہے‘۔

بدھ کو روسی فوج نے بمباری کو تسلیم کرتے ہوئے بتایا کہ ترکی کی مدد سے ہونے والے حملے کا ہدف حیات تحریر الشمسی کا ایک ویئر ہاؤس تھا۔

شام خانہ جنگی کے نویں سال میں داخل ہو چکا ہے ۔گزشتہ ہفتے، سینکڑوں لوگوں نے ڈیرہ شہر میں بشار الاسد کے مرحوم والد کا نیا مجسمہ نصب کرنے کے خلاف مظاہرے کیے تھے اور یہ وہی شہر ہے جہاں آج سے آٹھ سال پہلے شامی صدر کے خلاف پر امن مظاہرے شروع ہوئے تھے۔

جنوب میں بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کے باوجود پچھلے کچھ عرصے میں پہلی مرتبہ شامی حکومت کے زیر کنٹرول کسی علاقے میں بڑا پر امن مظاہرہ ہوا ہے۔

حکومت نے سابق باغیوں سے ’مفاہمت‘ کے متعدد معاہدوں کے بعد گزشتہ سال کے وسط میں ڈیرہ کا دوبارہ کنٹرول سنبھالا تھا ۔

کرائسس گروپ نے جنوب میں صورتحال پر پچھلے مہینے اپنی رپورٹ میں کہا تھا ’شامی حکومت نے سینکڑوں کلیئر قرار پانے والے سابق باغیوں اور معصوم شہریوں کو حراست میں لے لیا تھا‘۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ایسے حربوں سے حکومت کے پورے ملک پر کنٹرول پانے کی کوششیں متاثر ہوں گی۔

ادھر، شام کے دوسرے علاقوں میں حالات حکومتی کنٹرول سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ ’شامی جمہوری فورسز‘ داعش کی باقیات کو ختم کرتے ہوئے ملک کے ایک تہائی حصے پر قابض ہو چکی ہیں۔

ان آٹھ سالوں میں شام کی مجموعی خراب صورتحال کے باوجود انقلاب کے خیال نے اب تک دم نہیں توڑا۔

حمدو کہتے ہیں:  انقلاب ختم نہیں ہوا۔ میں ایک مرتبہ بے گھر ہو  چکا ہوں اور اگر دوبارہ بھی بے گھر ہوا تو میرا انقلاب پر یقین برقرار رہے گا کیونکہ یہ میرے دل میں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین