میں نے تو رمضان ٹرانسمیشن سے منع کر دیا تھا: ریما

ریما نے کرونا وبا کی وجہ سے پہلے پہل رمضان ٹرانسمیشن سے انکار کیوں کیا اور وہ اپنی ٹرانسمیشن کس طرح کرنے والی تھیں؟ جانیے اس خصوصی گفتگو میں۔

پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے ٹی وی چینلز پر رمضان نشریات بہت بڑے پیمانے پر ہو رہی تھیں لیکن اس سال کووڈ۔19 یا کرونا (کورونا) وبا کی وجہ سے صورتحال مختلف ہے۔

اس سال کچھ چینلز رمضان نشریات کر ہی نہیں رہے اور چند ایک گذشتہ برس کی نشریات دوبارہ چلا رہے ہیں۔ جن چند چینلز پر رمضان کی نشریات ہو رہی ہیں ان میں سے ایک چینل پر پاکستان کی سٹار ریما خان مسلسل دوسری مرتبہ میزبانی کررہی ہیں۔

انڈپینڈںٹ اردو نے نجی ٹی وی چینل کے سیٹ پر ریما سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ گذشتہ برس اور اس سال کی نشریات میں کیا فرق ہے؟ ریما کے مطابق گذشتہ سال وہ آٹھ سے نو گھنٹے دورانیے کی رمضان نشریات کرتی تھیں اور انہیں اس خصوصی نشریات کے ذریعے اپنی اصلاح کا بہت اچھا موقع ملتا تھا۔

'رمضان نشریات کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انہیں مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں سے ملنے اور سیکھنے کو ملتا ہے اور یہ علم آگے منتقل کرنا آسان ہوتا ہے۔'

ریما نے گذشتہ سال کی رمضان نشریات کے بارے میں اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہا کہ سیٹ پرعام لوگوں کو بطور حاظرین مدعو کیا جاتا تھا اور جب وہ پہلی مرتبہ سیٹ پر آئیں تو جہاں ان لوگوں نے انہیں سراہا، وہیں ان لوگوں کے چہروں پر ایک امید بھی دکھائی دی کہ وہ کچھ نہ کچھ انعام جیت کر جائیں گے۔

عوام کے لیے بطور انعام گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، ایئر کنڈیشنرز جیسے بہت سے انعامات بڑی تعداد میں ہوتے تھے۔ 'پچھلے سال اتنے زیادہ سپانسرز تھے کہ میں نام پڑھتے پڑھتے تھک جاتی تھی لیکن پھر بھی کچھ نام رہ جاتے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رواں برس کرونا وبا سے رمضان نشریات کے متاثر ہونے کے بارے میں ریما نے بتایا کہ جب انہوں نے اس نشریات کی تیاری کی تھی تو وہ بہت ہی بڑے پیمانے پر تھی، جیسے اس نشریات کا کچھ حصہ ترکی کے شہر استنبول کی معروف نیلی مسجد میں تیار کرنا تھا، اسی طرح اس کی عکاسی امریکہ کے دو، تین شہروں کے مرکزی مساجد کے ساتھ ساتھ مسجدِ نبوی میں بھی کی جانی تھی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کا عراق جانے کا بھی ارادہ تھا تاکہ 20،19  اور21 رمضان کو حضرت علی کے حوالے سے خصوصی شریات براہِ راست کی جا سکیں۔

'جب ہم نشریات کرنے کے قریب آئے تو کووڈ۔ 19 کی وجہ سے دنیا میں ایک ان دیکھی تباہی آچکی تھی۔ شروع میں تو میں نے معذرت ہی کرلی تھی کیونکہ کچھ گھبراہٹ تھی تو کچھ اپنی جان کے ساتھ ساتھ دوسروں کی جان کی فکر بھی۔ تاہم پروگرام سے منسلک افراد نے مشورہ دیا کہ اس دور میں مجھ پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ میں نے ان حالات میں ایک ان دیکھی آزمائش کے بارے میں لوگوں تک آگہی پہنچانی ہے۔'

اس سوال پر کہ کیمرے کے سامنے بیٹھنے والے افراد دستانے اور ماسک نہیں پہن سکتے، کیا یہ امر ان کی فکر میں اضافے کا سبب بنا تو ریما نے کہا کہ جب ان کے شوہر ڈاکٹر طارق شہاب فروری میں امریکہ سے آئے تو ان دونوں نے 'آر ٹی کیئر' کے نام سے ایک مہم شروع کی تھی تاکہ کووڈ۔ 19 کے بارے میں سوشل میڈیا پرغلط معلومات کا سدِباب کیا جا سکے۔

ریما نے کہا کہ اس سلسلے میں انہوں نے احتیاط کے تمام پہلؤوں کو مدِنظر رکھا لیکن کبھی کبھی یہ خیال بھی آتا تھا کہ لوگوں کو گھر میں رہنے کا کہہ کر خود گھر سے نکل رہی ہوں، اس وبا کی وجہ سے انہیں خود لاہور سے کراچی بذریعہ سڑک آنا پڑا تھا لیکن کہیں کہیں یہ یقین بھی کرنا پڑتا ہے کہ موت کا وقت معین ہے تاہم احتیاط بہت ضروری ہے۔

کیا ریما کو اپنی رمضان نشریات میں مہمانوں کو بلانے میں کوئی دشواری پیش آ رہی ہے؟ اس ضمن میں ریما کا کہنا تھا کہ ایک تو ان کی وجہ سے کوئی منع نہیں کرتا اور دوسرے ہم صرف مہمانوں کا انٹرویو نہیں کرتے بلکہ ہم ان سے سماجی دوری اور لاک ڈاؤن کے دوران ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور ان کے تجربات کو عوام کے سامنے رکھنے کی بات کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب تک کسی ایک بھی شخصیت نے انہیں منع نہیں کیا۔

ریما نے بتایا کہ وہ اپنے سیٹ پر سماجی فاصلے کا خیال رکھتی ہیں، خاص کر جو مہمان خواتین آتی ہیں ان کا اور میرا دل بہت چاہتا ہے کہ گلے ملیں مگر ہم ایسا نہیں کرتے، سیٹ کو روزانہ کی بنیاد پر سینیٹائز کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ سیٹ پر صرف ضروری لوگ موجود ہوتے ہیں۔

گذشتہ دنوں عامر لیاقت حسین کی رمضان نشریات میں عدنان صدیقی کے ساتھ ہونے والے ایک متنازعے معاملے پر ریما کا کہنا تھا کہ ہرانسان کی اپنی سوچ ہے اور اپنا مزاج ہے، کوئی میزبان کسی مہمان کو بلا کر کیسے الفاظ استعمال کرتا ہے، اس بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔

ریما نے کہا کہ ’جو کچھ انہوں نے کہا وہ لوگوں نے دیکھ لیا۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور انہوں نے معافی مانگ لی ہے تو اب میرا اس پر رائے دینا مناسب نہیں۔'

مکمل انٹرویو دیکھنے کے لیے

 

زیادہ پڑھی جانے والی فن