’سعودی ولی عہد کی مخالفین کے خلاف مہم ایک سال سے جاری‘

جمال خاشقجی کے قتل سے پہلے ہی جاری مہم میں سعودی شہریوں کی خفیہ نگرانی، اغوا، حراست اور تشدد شامل تھا، امریکی حکام۔

اے ایف پی فائل فوٹو

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے قتل سے ایک سال پہلے مخالفین کو خاموش کروانے کے لیے ایک خفیہ مہم کی اجازت دی تھی۔

مہم کے حوالے سے خفیہ انٹیلیجنس رپورٹس پڑھنے والے امریکی حکام نے دعوی کیا ہے کہ مہم میں سعودی شہریوں کی خفیہ نگرانی، اغوا، حراست اور تشدد شامل تھا۔

مہم کا شکار بننے والے سعودی شہریوں کے قریبی ساتھیوں اور سرکاری حکام نے بتایا کہ مہم میں کچھ ایسے لوگوں نے بھی حصہ لیا جو اکتوبر میں ترکی کے شہر استنبول میں خاشقجی کے قتل اور لاش کے ٹکڑے کرنے والی قاتل ٹیم کا حصہ تھے۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خاشقجی کا قتل اس وسیع مہم کا حصہ تھا۔

امریکی حکام کے مطابق خاشقجی کو قتل کرنے والی ٹیم کے کارندے 2017 میں شروع ہونے والی مہم کے کم از کم ایک درجن آپریشنز میں ملوث رہے۔

مہم میں کئی سعودی منحرفین کو مشرق وسطی کے دوسرے ملکوں سے زبردستی واپس بلوانا اور ولی عہد اور ان کے والد شاہ سلمان کے محلات میں قیدیوں پر تشدد بھی شامل تھا۔

امریکی خفیہ دستاویزات کے مطابق، سعودی عرب میں خواتین کے بارے میں بلاگز لکھنے والی ایک یونیورسٹی لیکچرار نے، جنہیں اسی ٹیم نے زیر حراست رکھا، نفسیاتی تشدد کے بعد گزشتہ سال خود کشی کی کوشش کی تھی۔

انٹیلیجنس رپورٹس سے آگاہ امریکی حکام نے بتایا کہ ٹیم اپنی سرگرمیوں میں اتنی مصروف تھی کہ گزشتہ جون ان کے سربراہ نے ولی عہد کے سینئر مشیر سے پوچھا کہ آیا محمد بن سلمان انہیں عید الفطر پر بونس بھی دیں گے یا نہیں؟

واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے کہا: ’سعودی بادشاہت مقدمات کا سامنے کرنے والوں اور قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے الزامات کو سنجیدگی سے دیکھتی ہے۔‘

ترجمان نے مزید کہا کہ سعودی قوانین تشدد کی اجازت نہیں دیتے اور جج دباؤ کے تحت لیے جانے والے بیانات مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پبلک پراسیکیوٹر اور سعودی انسانی حقوق کا کمیشن ’حالیہ الزامات‘ کی تحقیقات کر رہا ہے۔

سعودی حکومت کا اصرار ہے کہ امریکہ کے رہائشی اور واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھنے والے سعودی حکومت کے مخالف جمال خاشقجی کے قتل کے احکامات ریاض سے جاری نہیں ہوئے۔

سرکاری حکام کہتے ہیں خاشقجی کو قتل کرنے کا فیصلہ موقع پر موجود ٹیم نے خود کیا، جن کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔

ادھر، امریکی اور ترک خفیہ ایجنسیاں کہتی ہیں کہ خاشقجی کا قتل سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔

خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی حکام نے تسلیم کیا کہ سعودی اںٹیلیجنس سروس کو حکم ملا تھا کہ منحرفین کو واپس لایا جائے، تاہم حکام نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ اس کام کے لیے ایک مخصوص ٹیم تیار کی گئی تھی۔

سعودی عرب ماضی میں بھی منحرفین اور بیرون ملک آباد اپنے شہریوں کے خلاف کارروائی کرتا رہا ہے لیکن 2017 میں محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد اس کریک ڈاؤن میں اضافہ ہوا۔

اس عرصے میں محمد بن سلمان نے تیزی سے اپنا اقتدار مضبوط کرتے ہوئے سکیورٹی سروسز کے سربراہ پرنس محمد بن نائف کو علیحدہ کیا نسبتاً ایک نوجوان شہزادے کو سربراہ بنا دیا۔

اس وقت سے سعودی سکیورٹی فورسز خطرہ سمجھے جانے والے درجنوں علما، دانش وروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے علاوہ ٹوئٹر پر حکومت مخالف تنقیدی اور طنزیہ کمنٹس کرنے والوں کو بھی پکڑ رہی ہیں۔

بروکنگز انسٹیٹیوٹ سے وابستہ سی آئی اے کے سابق تجزیہ کار بروس ریڈل کہتے ہیں: ’ہم نے اتنے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن پہلے نہیں دیکھا۔ پہلے جمال خاشقجگی جیسے منحرف کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔‘

امریکی حکام کے مطابق خاشقجی کو قتل کرنے والی ٹیم کو ولی عہد نے اجازت دی جبکہ شاہی عدالت کے میڈیا انچارج سعود القھطانی نے آپریشن کی نگرانی کی۔

القھطانی کے نائب اور انٹیلیجنس افسر مہر عبدالعزیز مطرب نے، جو ولی عہد کے ساتھ بیرون ملک بھی سفر کر چکے ہیں، ٹیم کی سربراہی کی۔

ٹیم کے ایک اور کارندے طاہر غلیب الحربی شاہی گارڈ کے رکن ہیں جنہیں 2017 میں ولی عہد کے ایک محل پر حملے کے دوران دلیری کا مظاہرہ کرنے پر ترقی ملی تھی۔

ایک سعودی افسر نے بتایا کہ الحربی اور مطرب کے خلاف خاشقجی کے قتل سے تعلق پر ریاض میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے جبکہ گھر میں نظر بند القھطانی پر سفری پابندی اور تحقیقات جاری ہیں۔

امریکی خفیہ رپورٹس سے یہ واضح نہیں کہ ولی عہد براہ راست کس حد تک ٹیم کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں لیکن ٹیم کے کارندے القھطانی کو محمد بن سلمان سے جوڑتے ہیں۔

2017 میں جب محمد بن سلمان نے بدعنوانی کے الزام میں سینکڑوں شہزادوں، کاروباری شخصیات اور سابق ملازمین کو ریاض کے ریٹز کارلٹن ہوٹل میں بند کر دیا تھا تو القھطانی اور مطرب ہوٹل میں زیر حراست لوگوں پر دباؤ ڈالنے کا کام کرتے تھے۔

زیر حراست لوگوں کے قریبی ساتھیوں نے مزید بتایا کہ ہوٹل میں کئی لوگوں پر جسمانی تشدد ہوا، جس سے ایک ہلاکت بھی ہوئی۔

سعودی حکومت ہوٹل میں ہونے والے کسی بھی تشدد کی تردید کرتی ہے۔

مزید پڑھیےسعودی عرب: انسانی حقوق کی سرگرم کارکنوں کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز

امریکی خفیہ ایجنسیاں سعودی منحرفین کے خلاف مہم میں محمد بن سلمان کے کردار کے شواہد اکھٹی کرتی رہی ہیں اور دسمبر میں نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے ایک رپورٹ میں کہا کہ 2017 میں شہزادے نے اپنے ایک اعلی معتمد کو بتایا تھا کہ اگر خاشقجی واپس نہ آئے اور حکومت پر تنقید ختم نہ کی تو وہ خاشقجگی کو گولی مار دیں گے۔

خاشقجی کے قتل میں ملوث ٹیم گزشتہ سال انسانی حقوق کی تقریباً ایک درجن خواتین کارکنوں پر تشدد اور زیر حراست رکھنے میں ملوث تھی۔

ان خواتین میں متحدہ عرب امارت سے خود گاڑی چلا کر سعودی عرب میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والی لاوجین الحاتلول، ریٹائرڈ کمپیوٹر سائنس پروفیسر عزیزہ الیوسف اور لیکچرار ایمان النفجان وغیرہ شامل ہیں۔

لاوجین کی بہن عالیہ نے بتایا کہ ابتدا میں ان خواتین کو قید خانوں کے بجائے جدہ کے ایک خالی محل میں رکھا گیا۔

ہر خاتون کو ایک الگ کمرے میں بند رکھا گیا اور بار بار ان سے تہہ خانے میں تفتیش کے دوران تشدد، بجلی کے جھٹکے، واٹر بورڈنگ، ریپ اور قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔

عالیہ نے نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون میں لکھا کہ القھطانی ان کی بہن پر تشدد کے کئی موقعوں پر موجود تھے اور انہوں نے لاوجین کو قتل کر کے لاش گٹر میں پھینکنے کی دھمکی بھی دی۔

امریکی انٹیلیجنس کے تجزیے میں سامنے آیا کہ انتہائی سخت سلوک کی وجہ سے ایمان النفجان نے خود کشی کی کوشش کی تھی۔

عالیہ نے بتایا کہ ان خواتین کو بعد میں جدہ کی دہبان جیل بھیج دیا گیا جہاں ان پر تشدد ختم کرتے ہوئے رشتہ داروں کو ملنے کی اجازت دی گئی۔

بدھ کو ان خواتین کے خلاف کھلی عدالت میں کارروائی شروع ہوئی لیکن صحافیوں اور سفیروں کو کارروائی سے دور رکھا گیا۔

سعودی حکام کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والی سرگرمیوں سے منسلک ہونے پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین