سوشل میڈیا پر بزنس ہی واحد راستہ بچا ہے: کاروباری خواتین

لاک ڈاؤن کے نتیجے میں کاروباری خواتین سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے کاروبار کو زندگی دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔

معیزہ راجپوت لاک ڈاؤن کے بعد  اب سوشل میڈیا سیشز پر اپنی جیولری فروخت کرتی ہیں۔ (سکرین گریب)

'ڈر نہیں تھا، بس تھوڑی کنفیوز تھی، جس کی وجہ سے میرا دھیان ہٹ گیا کیونکہ ایک تو میں پہلی بار کیمرے کے سامنے کھڑی تھی اور دوسرا مجھے معلوم ہوا کہ میری آواز لوگوں تک ٹھیک سے نہیں جا پا رہی جس کی وجہ سے ایک ایسا وقت بھی آیا کہ میں سب بھول گئی کہ کیا کہہ رہی ہوں۔'

یہ کہانی کسی ٹی وی نیوز اینکر کی نہیں بلکہ ایک فیشن ڈیزائنر نوشین محمود کی ہے، جو 'این ایم' کے نام سے کپڑوں کا ایک برانڈ چلاتی ہیں۔

نوشین نے شوہر کے انتقال کے بعد 2016 میں فیشن ڈیزائننگ کو پیشے کے طور پر اپنایا۔

نوشین کہتی ہیں کہ ان کا سسرال اور میکہ اچھا ہے مگر وہ اپنے بچوں کو ایک پراعتماد اور اپنے پیروں پر کھڑی ماں دینا چاہتی تھیں۔

2018 میں نوشین نے ایم ایم عالم روڈ لاہور پر کپڑوں کی دکان میں ایک ریک کرائے پر لیا ،جہاں وہ اپنے ڈیزائن کردہ کپڑے نمائش کے لیے رکھتیں اور انہیں آرڈر ملتے۔ اس طرح ان کا کام ٹھیک چل رہا تھا لیکن پھر کرونا (کورونا) وائرس کی وبا پھیلی اور کاریگر، درزی، کپڑوں کی دکانیں، رنگ ساز وغیرہ سب بند ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'میرا کام رک گیا۔ میں نے وہ ریک بھی چھوڑ دیا تاکہ کرایہ نہ دینا پڑے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ نئے کپڑے تو بن نہیں سکتے مگر سٹاک میں موجود کپڑے کیسے بیچے جائیں۔'

بقول نوشین: 'لاک ڈاؤن کے بعد میں نے دیکھا کہ فراغت کی وجہ سے لوگوں کا زیادہ تر وقت فیس بک یا سوشل میڈیا پر گزرتا ہے اور بزنس سماجی رابطوں کی سائٹس پر براہ راست چل رہا ہے تو میں نے سوچا کہ میں بھی کچھ اسی طرح کرتی ہوں۔  مجھے ایک فیس بک پیج 'کنیکٹڈ ویمن آف پاکستان' کا خیال آیا کہ کیوں نہ میں ان سے منسلک ہوجاؤں۔ وہاں پہلے سے کئی خواتین اپنے کاروبار کو براہ راست پروموٹ کر رہی تھیں، سو میں نے بھی ایسا ہی کیا۔'

نوشین بتاتی ہیں کہ بے شک لائیو سیشن میں ان کی ویڈیو کی آواز ٹھیک نہیں تھی مگر پھر بھی بہت سے لوگوں نے براہ راست ان کے ڈیزائن کردہ کپڑے دیکھے اور پسند کیا۔

نوشین کو امید ہے کہ انہیں آرڈرز بھی مل جائیں گے، دوسرا اس براہ راست سیشن سے کم از کم دنیا کو یہ معلوم ہوا کہ 'میں اور میرا برانڈ بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔'

معیزہ راجپوت ہینڈ کرافٹ جیولری ڈیزائنر ہیں اور پیتل کے زیور بنا کر انہیں برانڈ 'ورثا' کے نام سے چلاتی ہیں۔

معیزہ نے بتایا کہ وہ کرونا وبا سے قبل آئے روز لاہور اور اسلام آباد میں اپنے زیورات کی نمائش کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ سماجی تقریبات میں شرکت کے دوران بھی اپنے زیورات کی تشہیر کرتی۔

'جن لوگوں کو میرے زیورات پسند آتے وہ آن لائن پیج پر آ کر آرڈر کرکے جیولری خرید لیتے تھے مگر لاک ڈاؤن کے باعث میرے بزنس پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ اب ہمارے پاس ایک یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ میں سوشل میڈیا پر چھوٹے کاروبار سے منسلک خواتین کے لیے بنے مختلف گروپس میں براہ راست آکر اپنے برانڈ کی تشہیر کروں اور انہیں بیچوں۔'

معیزہ کہتی ہیں کہ اب رجحان بدل رہے ہیں۔ 'مجھے لگتا ہے کہ اب ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ ہے سماجی رابطوں کی سائٹس۔ اب یہیں اپنے کاروبار کو چلتا رکھنے کے لیے ہمیں نئے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔'

انہوں نے مزید بتایا: 'اس لائیو سیشن میں جہاں مجھے کچھ آرڈرز ملے اور میں اپنے زیورات بیچنے میں کامیاب ہوئی، وہیں میں نے کیمرہ، لائٹس اور زوم چلانا بھی سیکھا۔ ان سیشنز نے مجھے تکنیکی طور پر بہت کچھ سکھایا ہے۔ '

کرونا وبا نے جہاں طرز زندگی تبدیل کیا، وہیں کروبار چلانے کے لیے بھی نت نئے طریقے دریافت ہو رہے ہیں۔ سماجی رابطوں کی سائٹس خاص طور پر فیس بک پر تو بہت سے ایسے گروپس موجود ہیں جہاں ہفتے کے کسی ایک دن گروپ کے اراکین کو اپنے کاروبار کی تشہیر یا اپنی کسی ایسی چیز کو بیچنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے جس کی انہیں مزید ضرورت نہیں۔

اب کچھ گروپس نے لوگوں کو یہ موقع بھی دیا ہے کہ وہ باقاعدہ پیج پر براہ راست آکر اپنی اشیا بیچیں یا اس کی تشہیر کریں۔ ایسے گروپس صرف خواتین کے لیے نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی موجود ہیں۔

فیس بک پر دو برس سے موجود 'کنیکٹڈ ویمن آف پاکستان گروپ' کی بانی تہمینہ اے چوہدری خود بھی انسٹا فوڈ کے نام سے ایک فوڈ چین چلاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کنیکٹڈ ویمن پاکستان چھوٹے کاروبار کرنے والی خواتین، آنٹرپرینیورز اور ہوم بیسڈ کاروبار کرنے والی خواتین کے لیے سپورٹ گروپ ہے جہاں وہ نیٹ ورکنگ اور سیکھنے سکھانے پر توجہ دیتے ہیں۔

'اس گروپ میں کسی قسم  کی خریدو فروخت کی پوسٹس کی اجازت نہیں مگر کرونا وبا کے بعد ہم نے اجازت دی کہ خواتین خریدو فروخت کی پوسٹس اس گروپ میں ڈال سکتی ہیں اور اسی سلسلے میں ہم نے رمضان میں براہ راست کاروبار کی تشہیر کا بھی آغاز کیا۔

تہمینہ نے بتایا کہ وہ براہ راست سیشن کے لیے 1500 روپے لیتی ہیں جو فیس بک ایڈورٹس پر خرچ ہوتے ہیں۔ 'ہم خواتین کے کاروبار کی براہ راست تشہیر کو مختلف سماجی رابطوں پر پوسٹ کرتے ہیں اور ان کے فیس بک ایڈورٹس چلاتے ہیں۔'

'ہم ایک بزنس فوکس گروپ ہیں، لہٰذا ہمارے اراکین کی تعداد صرف ساڑھے تین ہزار ہے، اس لیے ہم نے کچھ دوسرے گروپس، جن کے اراکین کی تعداد 40 سے 50 ہزار ہے، کے ساتھ پارٹنر شپ کی، جس کے بعد ہم اپنے تمام براہ راست سیشنز کو ان گروپس میں بھی شیئر کر رہے ہیں۔'

تہمینہ نے بتایا کہ لائیو سیشنز کرنے والی خواتین کو باقاعدہ زوم کے ذریعے آن لائن تربیت دی گئی ہے۔ 'ایک دن میں چھ سیشنز ہوتے ہیں جن میں دو دوپہراور چار رات میں ہوتے ہیں۔'

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین