آئیے! پاکیشیا سیکرٹ سروس اور ایکسٹو کو یاد کرتے ہیں

مظہر کلیم ایم اے کے ہر ہر ناول میں نہ کوئی الجھاؤ نہ گہری تمثیل، نہ اساطیر، نہ بھاری بھرکم لفظیات، نہ پہیلیاں۔ بس جاسوسی کہانی کی صورت فکشن، سائنس، علم، معلومات، حب الوطنی، مسلسل جدوجہد اور اعلی اخلاقی و معاشرتی قدروں کا ایک جہان آباد ہوتا ہے۔

(سوشل میڈیا)

زمان و مکان کی کائناتی بندشوں، غم جاناں اور غم روزگار سے جب زیست گاہے جان سے گزر آتی ہے اور گاہے جان سے گزر جاتی ہے، تو اس ہمہ رنگ یکسانیت سے طبیعت اوبھ سی جاتی ہے۔ اس سمے تھوڑی سی تنہائی چاہے ہوتی ہے اور محض لب دوز و لب ریز چائے کا ایک پیالہ۔۔۔

اس دل ستاں ساعتوں میں ہمارا بہترین رفیق عمران سریز کا ناول ہوتا ہے۔ ابن صفی، صفدر شاہین، ایم اے راحت اور ظہیر احمد نے عمران سیریز کے تسلسل کو اپنے اپنے انداز سے آگے بڑھایا اور مقبولیت حاصل کی لیکن لیجنڈری مظہر کلیم ایم اے کا رخش قلم جب قرطاس پر بگٹٹ دوڑتا تھا تو سربلندیوں اور سرشاریوں کو چھو لیتا تھا۔ انہوں نے عمران سیریز کے کرداروں کو ایسی جاودانی بخشی کہ چیف ایکسٹو، علی عمران، ٹائیگر، جوانا، جوزف، کیپٹن شکیل، صفدر، صدیقی، نعمانی، تنویر، صالحہ، جولیانافٹرواٹر اور سلیمان سے ہمارا گہرا جذباتی رشتہ بن گیا ہے۔ پاکیشیا سیکرٹ سروس خوشبو کی صورت ہمارے دلوں میں ہمکتی ہے۔ دانش منزل عزم و شجاعت کا استعارہ بن کر ہماری آنکھوں میں جھلملاتی ہے۔
1990 کی دہائی کے آخری چند برسوں کی عجیب جادو اثر راتیں تھیں وہ بھی۔۔۔ مرحوم سلیم بھائی درگاہ حضرت محبوب سبحانی اوچ شریف کے قریب واقع خورشید صاحب کی 'عمران دی گریٹ لائبریری' (جو ایک کھوکھے پر مشتمل تھی) سے دو روپیہ فی یوم کرایہ پر عمران سیریز کا ناول لے کر آتے تو اپنے کمرے میں چھپا کر رکھ دیتے کہ مبادا کسی کی نظر نہ پڑ جائے اور نتیجے میں 'نقض امن' کا خطرہ پیدا نہ ہو جائے کیونکہ گھر میں پڑھنے والے ماشاء اللہ زیادہ ہوتے تھے اور ناول ایک۔۔۔۔ سو وہ رات گئے تک سب کے سونے کا انتظار کرتے اور پھر ناول پڑھنا شروع کرتے۔ ہم سب سے چھوٹے تھے تو دوسرے بہن بھائیوں کے مقابلے میں ہماری سینیارٹی درجہ چہارم کی تھی، یعنی کہ ناول کی بجائے ہمیں اپنی تعلیم پر توجہ کا مفت مشورہ دیا جاتا۔ سو ہمارے ناول پڑھنے پر غیراعلانیہ پابندی ہوتی۔
جب سلیم بھائی لیٹتے ہوئے ناول پڑھنا شروع کرتے تو ہم حیلے بہانوں سے ان کی چارپائی کے قریب منڈلانا شروع کر دیتے کہ کب ان کو نیند آئے اور کب ہم ناول اچک لیں۔ کافی انتظار کے بعد آخر کار گوہر مراد ہاتھ آتا تو طبیعت کی ساری کلفت و کوفت دور ہو جاتی تھی۔ وہ ناول ہمیں اسی رات مکمل کر کے سلیم بھائی کی چارپائی پر تکیہ کے نیچے اسی پوزیشن میں رکھنا پڑتا تھا جیسے وہ رکھ کر سوتے تھے۔
اس دوران تعلیم کے حوالے سے ہماری 'خستہ حالی' کو بھانپتے ہوئے ابا نے ہمیں بھائی شبیر احمد ناز کے پاس گاؤں بھیج دیا۔ کہنے کو تو بھائی جان موٹر نیوران کے لاعلاج مریض اور جسمانی طور پر معذور تھے لیکن وہ ایسے بلند ہمت لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے کبھی بھی اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا۔ انہوں نے گاوں کی تاریخ میں پہلی بار ایک چھپر سکول بنا کر جہاں بچوں کو مفت تعلیم دینے کا بیڑہ اٹھایا وہاں ایک فری لائبریری قائم کر کے انہوں نے پسماندہ علاقے میں علم کی شمع سے اجیارا کر دیا۔
ہماری خوش قسمتی کہ ان کے اولین شاگردوں میں ہم بھی شامل تھے اور ایک عرصے تک ان سے اکتساب فیض حاصل کیا۔ ان کی قائم کردہ فری لائبریری میں مظہر کلیم ایم اے کے ناول بھی تھے۔ جمعہ کو ہفتہ وار چھٹی کے دن ہم ناول اٹھا شیر دریا یا چناب کے کنارے گھنے چھتنار شجر کے نیچے ہری بھری گھاس پر لیٹ کر ناول سے حظ اٹھاتے یا پھر اپنے کھوہ پر چلے جاتے، جہاں آبائی زمین پر آم کے درخت کے نیچے بچھی چارپائی پر لیٹ کر عمران سیریز کے ناول میں گم ہو جاتے۔ ساتھ رہٹ چلتا رہتا۔ بچے بالے کھالے میں نہاتے، شرارتیں کرتے رہتے اور ہم ناول پڑھتے جاتے۔ اس دوران ہمارے چچا جان جامن، آم، کھجوروں اور بیروں کی شکل میں موسمی پھل اور بکریوں کے دودھ سے لکڑیوں پر بنائی جانے والی چائے سے ہماری خاطر مدارت کرنا نہیں بھولتے تھے۔
''ناقابل تسخیر مجرم''، ''کاغذی قیامت''، ''ایکسٹو''، ''گنجا بھکاری''، ''زیرو اوور زیرو''، ''سنیک سرکل''، ''خاموش چیخیں ''، ''بانکے مجرم''، ''بیس کیمپ'' اور ''بلیو فلم'' جیسے شاندار ناول ہمارے اسی دور کی یاد گار ہیں جنہیں ہر بار پڑھتے ہوئے بھی پہلی بار پڑھنے کا گمان ہوتا ہے اور جسے پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکیشیا سیکرٹ سروس سے ہمارا جنم جنم کا ناتا ہے اور ان کے ممبران سے ہمارا تعلق کئی جنموں کا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

علی عمران کی شگفتگی میں ملفوف ذہانت، سید چراغ شاہ صاحب کی روحانیت، سر داور کی سائنسی توضیحات، سر سلطان کی باوقار شخصیت، سر رحمان کی اصول پسندی، خالہ زاد قاسم کے انوکھے انداز، سوپر فیاض کے لاابالی پن، کرنل فریدی کی سنجیدگی، کیپٹن حمید کی جذباتیت، ثریا کی حاضر جوابی اور اماں بی کی بے لوث دعاؤں کو بھلا کون بھول سکتا ہے؟ ان گنت خوبیوں کے مالک یہ سب کردار مہان ہیں جن کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہمارے لیے بھلائی کا پیغام یا کوئی نصیحت چھپی ہوتی ہے۔
مظہر کلیم ایم اے کے ہر ہر ناول میں نہ کوئی الجھاؤ نہ گہری تمثیل، نہ اساطیر، نہ بھاری بھرکم لفظیات، نہ پہیلیاں۔ بس جاسوسی کہانی کی صورت فکشن، سائنس، علم، معلومات، حب الوطنی، مسلسل جدوجہد اور اعلی اخلاقی و معاشرتی قدروں کا ایک جہان آباد ہوتا ہے جس کا منبع دانش منزل ہے اور مدار المہام چیف ایکسٹو۔ عمران سیریز کے ناول اور ان ناولوں سے وابستہ نوسٹیلجیا دراصل کئی دہائیوں پر محیط پراثر سمفنی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زود ہوتی چلی جا رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر