عمر بن عبدالعزیز کا مزار تباہ ہونے کی خبر غلط

پاکستان میں یہ خبر پچھلے کئی دنوں سے ٹرینڈ کر رہی ہے، مگر یہ غلط خبر آئی کہاں سے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟

(@JonathanACBrown)

چند دن پہلے شام میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مزار گرانے کی خبر پاکستان پہنچی۔ چند لمحات میں ہی اسے ایران سے اور پھر ایک مکتب فکر سے جوڑ دیا گیا۔ اس پر پروپیگنڈے کی ایسی لہر آئی کہ پورا سوشل میڈیا اس سے بھر گیا، ٹوئٹر پر کئی روز تک یہی ٹرینڈ رہا۔

اس دوران صحافت کا بنیادی اصول نظر انداز ہو گیا کہ خبر آئی کہاں سے؟ اس کا ماخذ کیا ہے اور کتنا قابلِ اعتبار ہے؟ میں نے کوشش کی کہ اس خبر کے اصل ذرائع کو تلاش کیا جائے۔ کافی تگ و دو کے بعد پتہ چلا کہ اس کا کھرا ترکی کی ایک سائٹ سے جا ملتا ہے۔ تھوڑی کرید سے معلوم ہوا کہ یہ کوئی مستند اخباری ویب سائٹ نہیں ہے بلکہ اس پر پروپیگنڈا نشر کیا جاتا ہے۔

یہ سورس تو قابل اعتبار نہ تھا۔ پھر سوچا اتنا بڑا واقعہ ہے اگر ایرانی یا شامی ایسا کرتے تو اسرائیلی اور امریکی میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہوتا۔ پھر خیال آیا کہ اگر واقعی ایسا ہی ہوا ہے تو ترکی کو سب سے پہلے اس کا پتہ چلنا چاہیے تھا لہٰذا ان کا کوئی نہ کوئی سرکاری ردعمل ضرور سامنے آنا چاہیے تھا۔ لیکن باوجود تلاش بسیار کوئی ردعمل نہ ملا۔

یہ یقینا ایک تاریخی ورثہ تھی جس کی عالمی حیثیت ہے اس پر یونیسکو کا ردعمل بھی آنا چاہیے تھا وہ بھی بالکل خاموش رہا۔ اس سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ خبر مشکوک ہے اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے مذہبی جماعتوں کے ایک بڑے اتحاد کے عہدیدار نے رابطہ کیا کہ ہم مذمت کا بیان جاری کرنے والے ہیں آپ کے مطابق اس خبر کی حقیقت کیا ہے؟ میں نے عرض کیا یہ جنگی پروپیگنڈا ہے جب تک بین الاقوامی میڈا معتبر ذرائع سے اس کی تصدیق نہ کرے ابھی تک کے سورسز قابل اعتبار نہیں ہیں۔ ان کا فون تو بند ہو گیا مگر تھوڑی دیر بعد ٹی وی چینلوں پر ان کا بیان چل گیا کہ اس کی مذمت کی جاتی ہے۔

یاد رہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے 717 سے 720 تک حکومت کی اور شیعہ اور سنی دونوں ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ 

اس سارے واقعے سے پردہ حال مقیم دمشق، معروف پاکستانی کالم نویس عثمان قاضی نے ہم سب ڈاٹ کام پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کی قبر کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے ہٹایا کہ یہ مزار ’ہیۃ التحریر الشام‘ نامی ایک عسکریت پسند تنظیم کے قبضے میں تھا جو اسے دفتر اور گولہ بارود کی ذخیرہ اندوزی کے لیے استعمال کرتی تھی۔ گولہ بارود پھٹنے سے آگ بھی لگی تھی جس سے اسے نقصان پہنچا تھا ان کے عین الفاظ کے مطابق:

’کسی بھی فریق کی جانب سے کھدائی، منتقمانہ بے حرمتی یا نوادرات کی چوری کی کوشش کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔‘

افواہ وائرل ہونے کے بعد ہم دوستوں کو متوجہ کرتے رہے کہ دیکھیں یہ خبر پاکستانی معاشرے کی چولیں ہلا دے گی، اس سے گلی محلے میں فرقہ واریت پھیلے گی، ایسی خبریں معاشروں کو عدم استحکام سے دوچار کر دیتی ہیں اور لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیتی ہیں، اس لیے اس میں جس احتیاط اور تحقیق کی ضرورت ہے اسے ملحوظ خاطر رکھا جائے مگر یہاں سنتا کون ہے؟

ایک پروفیسر دوست جن کے فلسفے پر کئی مضامین شائع ہو چکے ہیں ان سے گزارش کی کہ آپ مسلسل ایک مجہول خبر پر لکھ رہے ہیں یہ مناسب نہیں ہے۔

اس پر فرمانے لگے، ’آپ کے پاس اس خبر کے جھوٹا ہونے کی کیا دلیل ہے؟‘

جہاں ڈگری والوں کی یہ حیثیت ہو کہ انہیں یہ بتانا پڑے کہ دلیل مدعی کے ذمے ہوتی ہے اور مقابل کو فقط انکار کرنا ہوتا ہے، وہاں عام آدمی کی فکری سطح کیا ہو گی؟ بس یہاں جھوٹ بکتا ہے اور تہمت کا کاروبار ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ