نجی بجٹ: بچت کمیٹیاں بھی تعطل کا شکار

پاکستان میں گذشتہ کئی ماہ سے کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ہونے والے لاک ڈاؤن سے بچت کمیٹیوں کا سلسلہ بھی بند ہے جس سے لوگوں کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ظاہر ہو رہا ہے۔

(اے ایف پی)

پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں،گلی محلوں اور بازاروں میں بچت کمیٹیوں کا تصور کافی پرانا چلا آرہا ہے۔

کاروباری اور ملازمت پیشہ افراد رقم جمع کرنے کے لیے آمدن کا کچھ حصہ کسی ایک جگہ جمع کراتے ہیں اور اس کے نکلنے کے لیے ایک وقت مقرر کیا جاتاہے۔

ہر ماہ کمیٹی ڈالنے والے اراکین طے شدہ رقم جمع کرانے کے پابند ہوتے ہیں اور ہر ماہ ہی قرعہ اندازی کے ذریعے جمع شدہ کمیٹی کی رقم کسی ایک رکن کو ملتی ہے۔ یہ سلسلہ آخری رکن کو رقم ملنے تک جاری رہتا ہے۔

اس طریقہ کار سے متوسط طبقہ خصوصا چھوٹے کاروبار یا نوکری کرنے والے افراد یک مشت کمیٹی نکلنے پر اپنے ضروری کام انجام دیتے ہیں۔

پاکستان میں گذشتہ کئی ماہ سے کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ہونے والے لاک ڈاؤن سے بچت کمیٹیوں کا سلسلہ بھی بند ہے جس سے لوگوں کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ظاہر ہو رہا ہے۔

بچت کمیٹیاں کس حد تک متاثر ہیں؟

لاہور میں برنڈتھ روڑ پر گذشتہ 15 سال سے کمیٹیاں ڈالنے والے قیصر عباس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے پاس 1کروڑ، 90، 80، 60 اور50 لاکھ کی چار کمیٹیاں چل رہی ہیں جن میں 25 سے 35 تک ممبران ہیں اور ماہانہ کمیٹی چھ لاکھ سے دولاکھ روپے تک مقرر ہوئی اور حسب معمول دو سے تین سال کا عرصہ رکھا گیا۔

پہلے ہر رکن وقت پر کمیٹی جمع کراتا اور قرعہ اندازی سے نکلنے کے بعد جمع شدہ رقم وصول کرتا رہا ہے لیکن 15 سال میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اپریل سے لوگوں کے کاروبار بند ہوئے اور انہوں نے کمیٹیاں ادا نہیں کیں نہ ہی اس دوران کسی کی کمیٹی نکلی۔

ان حالات میں سب نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک کاروبار نہیں کھلتے کمیٹیوں کا سلسلہ بند رہے گا اور جب حالات معمول پر آئیں گے تو دوبارہ یہ سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
ان سے پوچھا گیا کہ زیادہ تر لوگ کس وجہ سے کمیٹی ڈالتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس زیادہ تر کاروباری حضرات کمیٹی ڈالتے ہیں تاکہ جمع شدہ کمیٹی نکلنے پر وہ کاروبار بڑھا سکیں یا کوئی پراپرٹی خرید سکیں۔ کئی افراد اس رقم سے بچوں کی شادیاں بھی کرتے ہیں۔

لاہور کے علاقے اچھرہ میں گھریلو خواتین کی کمیٹیاں ڈالنے والی نسرین اختر نے بتایا کہ ان کے پاس محلے دار خواتین گذشتہ کئی سالوں سے کمیٹی ڈالتی ہیں۔ ان کے پاس اس وقت دو کمیٹیاں چل رہی ہیں ایک دو جبکہ دوسری ایک لاکھ روپے کی۔ پہلی کمیٹی دس ہزار جبکہ دوسری پانچ ہزار ماہانہ ہے۔ان دو کمیٹیوں کی بیس بیس مختلف خواتین رکن ہیں جو ماہانہ کمیٹی ڈالتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس گھریلو خواتین گھر کے خرچ سے اور بعض تنخواہ سے پیسے نکال کر بچت کمیٹی ڈالتی ہیں لیکن گذشتہ تین ماہ سے ہر کوئی مالی مشکلات سے دوچار ہے۔ گھریلو خواتین کو خرچ سے اور ملازم پیشہ کو تنخواہوں سے کمیٹی کی رقم ادا کرنا مشکل ہوچکا ہے لہذا جو ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں ان سے بھی لینے کا فائدہ نہیں کیونکہ ایسے کمیٹی پوری نہیں ہوسکتی تو ہم نے بھی جو کمیٹی دو سال کی تھی وہ اب ان مہینوں کو نکال کر 27 سے 28 ماہ تک کر دی ہے۔

کمیٹیاں متاثر ہونے سے مشکلات:

سنوکر کلب چلانے والے نعمان علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ گذشتہ آٹھ سالوں سے کمیٹی ڈال رہے ہیں۔ پہلی کمیٹی پچاس ہزار کی تھی۔ دوسری بار ڈیڑھ لاکھ کی کمیٹی ڈالی اور کلب کو بڑا کرنا شروع کیا سنوکر ٹیبلز خریدیں۔

اس بار دو سال کی دس لاکھ روپے کمیٹی ڈالی تھی اور بیس ہزار ماہانہ کمیٹی دیتا رہا لیکن کلب بند ہونے پر نہ صرف آمدن رک گئی بلکہ کلب کی عمارت کا کرایہ بھی نہیں دیا جا رہا جو تھوڑی بہت جمع پونجی تھی گھر کے اخراجات میں نکل گئی۔ انہوں نے بتایا کہ اب کلب کو بڑا کرنے کی بجائے لگتا ہے ٹیبلیں فروخت کرنا پڑیں گی۔

مکہ کالونی بازار میں گھڑیوں کی دوکان چلانے والے سعید خان نے کہا کہ عید قربان پر جانور خریدنے کے لیے وہ 40 ہزار روپے کی کمیٹی ڈالتے ہیں اور گذشتہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ لیکن اس بار پانچ کمیٹیاں ہی ادا کرسکا لیکن لاک ڈاؤن کے دوران کاروبار بھی بند رہا اور رواں ماہ دوکان کھولنے کی اجازت کے باوجود گاہک ہی کم آئے اور گھر کے اخراجات بھی مشکل سے چل رہے ہیں۔ کمیٹی بھی بند ہے کیونکہ کئی ممبران کی طرح میں بھی ادا نہ کرسکا تو کمیٹی روک دی گئی اس بار حالات یہی رہے تو شاید قربانی کے موقع پر جانور لینے کی استطاعت بھی نہ ہو۔

بولی پر کمیٹی کیسے نکلتی ہے؟

لاہور سمیت ملک کے بڑے شہروں میں بڑی کمیٹیاں ڈالنے والوں نے گذشتہ تین چار سال سے قرعہ اندازی میں نکلنے والی کمیٹی بولی میں لینے کی روایت بھی شروع کی جس کے تحت جب کسی کی کمیٹی نکلتی ہے تو ضرورت مند بولی دے کر اسے لے سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمیٹی سنبھالنے والے عمیر احمد نے بتایا کہ ہر ماہ کمیٹی قرعہ اندازی کے ذریعے نکالی جاتی ہے۔ ’جس رکن کے نام کی پرچی نکلے کمیٹی اس کو ملتی ہے۔ اس طرح وہ پہلے روز ہی ہر ماہ کی کمیٹی کے لیے ایک ہی بار قرعہ اندازی کر دیتے ہیں۔‘

ہر ماہ جس کو کمیٹی دینے کی باری آتی ہے اسے حق ہے کہ وہ بولی کرا دے۔ اس کی کمیٹی پہلے لینے کے خواہش مند پانچ لاکھ کی کمیٹی ایک لاکھ تک کم کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔ باقی ایک لاکھ سب ممبران میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس کمیٹی کو بولی والی کمیٹی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بولی والی کمیٹی میں آخری کمیٹی لینا والا سب سے زیادہ فائدہ میں رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آخری بار کمیٹی مارچ میں بولی کے زریعے دی گئی تھی اس کے بعد سے بند پڑی ہے۔

سیونگ اکاؤنٹ کے نام پر بینکوں میں بھی بچت کمیٹیوں کا تصور موجود ہے۔ بیشتر بینکوں نے بھی اس طریقہ کو اپنا رکھا ہے اس کے طریقہ کار کے مطابق بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوا کر اس میں ہر ماہ جمع کرائی جانے والی رقم کی حد اور مدت طے کی جاتی ہے۔ اس اکاؤنٹ سے مقررہ مدت سے پہلے پیسے نہیں نکل سکتے جبکہ مدت پوری کرنے پر بینک نو سے 12 فیصد تک منافع بھی دے رہے ہیں۔

بچت کمیٹیوں کا تاریخی پس منظر:

بینکاری نظام کے وجود میں آنے سے پہلے بچت کمیٹیاں ایک کارگر معاشی نظام کے طور پر موجود تھیں۔ پاکستان کےماہر معاشی امور ڈاکٹر قیس اسلم اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ برصغیر پاک وہند میں بینکاری نظام تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انیسویں صدی میں آیا تاہم اس سے پہلے بچت کمیٹیوں کے آثار ملتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ 'بچت کمیٹیوں کا تصور کمیونٹی سپورٹ کے طور پر لیا گیا جس میں چند افراد مل کر تھوڑی تھوڑی رقم جمع کر کے کسی ایک ضرورت مند کو دیتے ہیں اور وہ اس سے اپنی کاروباری یا ذاتی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بینکنگ کا نظام آنے کے باوجود بچت کمیٹیوں کا متوازی نظام آج بھی موجود ہے اور یہ کوریا جیسے ممالک میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہ اس لیے بینکنگ نظام کے باوجود موجود ہے کہ اس میں آسان طریقہ سے رقم جمع ہوکر مل جاتی ہے جبکہ بینک ابھی تک چھوٹے قرضے بھی بغیر سود کے دینے میں ناکام ہیں۔'

'بچت کمیٹیوں کا نظام گلی محلوں سے بازاروں تک پایا جاتا ہے جس پر لوگ اعتماد بھی کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں بولی کے ذریعے کمیٹی لینے دینے کا طریقہ کار غیرقانونی ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں مجبوری کے تحت جمع کرائی گئی رقم کم ملتی ہے۔'

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت