بھارت میں 56 ہزار سال پرانی جھیل کا پانی اچانک سرخ

جھیل کی مشہوری ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بسالٹ کی چٹان کی زمین کے ساتھ تصادم کےنتیجے میں وجود میں آنے والا سب بڑا گڑھا ہے۔ جھیل 56 ہزار پہلے شہاب ثاقب یا سیارے کے زمین ٹکرانےسے بنی۔

(ٹائمز آف انڈیا)

بھارت کی ریاست مہاراشٹر میں 56 ہزار سال قدیم ایک جھیل کا پانی پراسرار طور پہ سرخ ہو گیا ہے۔

گذشتہ چند دن میں ضلع بُلدھانہ میں واقع لونر کریٹر سینکچوئری نامی جھیل کا پانی گلابی مائل سرخ ہو گیا ہے۔ قدرتی طور پر یہ تبدیلی محکمہ جنگلات، سائنس دانوں، فطرت سے محبت کرنے والوں اور سوشل میڈیا صارفین کے درمیان گرما گرم بحث کا موضوع بن گئی ہے۔

بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق یہ جھیل بسالٹ کی چٹان سے بنی دکن کی ایک بڑی سطح مرتفع کےاندر واقع ہے۔

یہ جھیل لونرسینکچوئری کا حصہ ہے  جس کا رقبہ 66.3 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ ممبئی شہر سے پانچ سو کلیٹرکی دوری پر ہے جسے دیکھنے کے لیے سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں جب کہ دنیا بھر کے سائنس دانوں کے لیے دلچسپی کا سبب ہے۔

جھیل کی مشہوری ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بسالٹ کی چٹان کی زمین کے ساتھ تصادم کےنتیجے میں وجود میں آنے والا سب بڑا گڑھا ہے۔ جھیل 56 ہزار پہلے شہاب ثاقب یا سیارے کے زمین ٹکرانےسے بنی۔

اکولا کے علاقے میں ڈپٹی کنزرویٹر فاریسٹ (جنگلی حیات) ایم این کھیرنر کے مطابق جھیل کے پانی کی رنگت میں اچانک اتنی بڑی تبدیلی پہلی بار دیکھنے میں آئی ہے۔ جھیل کے پانی کا نمونہ لے کے اسے ٹیسٹ کیا جائے گا تا کہ معلوم ہو سکے کہ اس کی رنگت تبدیل کیوں ہوئی؟

بعض ماہرین کے مطابق لونر جھیل کا پانی بہت کھارا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس میں کاربونیٹ نمکیات بہت زیادہ ہے۔ زیادہ نمک ہونےکی وجہ سے جھیل کے پانی میں مخصوص قسم کا بیکٹیریا پیدا ہو گیا ہے۔ اس بیکٹیریا نے سرخ رنگ بنایا ہے جو جو سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کر کے توانائی پیدا کرتا ہے۔ بہت بڑی تعداد میں بیکٹیریا موجودگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی توانائی سے پانی کو سرخی مائل رنگت دے دی ہے۔

ایڈیشنل پرنسپل چیف کنزرویٹو آف فاریسٹس اور ملگھاٹ ٹائیگرزیزور کے فیلڈ ڈائریکٹر ایم ایس ریڈی کے مطابق ایک تحقیق کے بعد سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں خشک موسم میں جھیل کے پانی کی سطح کم ہو جاتی ہے جس سے اس میں نمک کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زیادہ نمک اور پانی کے درجہ حرارت میں اضافے سے ڈیونالیلا نامی کائی پیدا ہوتی ہے جو عام طورپر سبز رنگ کی دکھائی دیتی ہے لیکن نمک کی زیادہ مقدار اور تیز روشنی کی وجہ سے یہ سرخ رنگ اختیار کر سکتی ہے۔ ایسا ایک مخصوص حفاظتی رنگ کی وجہ سے ہوتا ہے جو گاجروں میں بھی پایا جاتا ہے۔

لونرجھیل کے تحفظ کے لیے سرگرم ارون مپاری کہتے ہیں کہ سائنس دان ابھی تک جھیل کے پانی کی منفرد رنگت کو مکمل طورپر نہیں سمجھ سکے تاہم اُن میں زیادہ تر کا خیال ہے کہ یہ جھیل کے پانی کی گلابی مائل سرخ رنگت کا مخصوص کائی کے ساتھ کچھ نہ تعلق ضرور ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات