وبا کے دنوں میں لوگوں کے مشغلے بھی جاگ گئے

لاک ڈاؤن کے دوران فراغت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سارے لوگ آج کل اپنے شوق کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں، جس سے نہ صرف ان کا وقت اچھا گزر رہا ہے بلکہ ان کا ہنر بھی بہتری کی طرف جاتے ہوئے مستقبل کے لیے نئے مواقع پیدا کر رہا ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران فارغ وقت کو کچھ لوگ بہترین انداز میں استعمال کر رہے ہیں (تصاویر: انیلا خالد)

کرونا (کورونا) وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد زندگی ایک نیا رخ اختیار کر گئی ہے۔ وبا سے پہلے کی زندگی میں ہر شخص  یہی الفاظ دہرائے جاتا تھا کہ وہ مصروف ہے، لیکن اب ہر کسی کے پاس وقت ہی وقت ہے۔21 ویں صدی کے انسان نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کو کبھی اتنی فرصت بھی مل سکے گی۔

اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو آج کل اپنے شوق کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ جس سے نہ صرف ان کا وقت اچھا گزر رہا ہے بلکہ ان کا ہنر بھی بہتری کی طرف جاتے ہوئے مستقبل کے لیے نئے مواقع پیدا کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے ہی کچھ خواتین و حضرات نے انڈپینڈنٹ اردو  کے ساتھ اپنے موجودہ شوق اور مشغلوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا شوق انہیں کئی اور اہم رموز سے واقف کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔

رانیہ عبداللہ گنڈا پور

رانیہ عبداللہ گنڈاپور کہتی ہیں کہ وبا سے پہلے وہ فوٹوگرافی کے کاروبار سے وابستہ تھیں، تاہم جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کا کاروبار بند ہوا تو بہت جلد انہیں گھر میں بے کار پڑے رہنے سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگی۔

’بوریت سے بچنے کے لیے میں نے آن لائن آرٹ خصوصاً کیلی گرافی کی ویڈیو وغیرہ دیکھنا شروع کیں، کیونکہ فوٹوگرافی کے علاوہ فن خطاطی سیکھنا بھی ہمیشہ میری ایک خواہش رہی تھی، لیکن مجھے اس کے لیے کبھی موقع ہی نہیں مل پایا تھا۔‘

رانیہ نے مزید بتایا: ’آرٹ پر مبنی تصاویر اور  ویڈیوز دیکھتے دیکھتے میرا شوق اتنا بڑھ گیا کہ میں نے برش کو رنگوں میں ڈبو کر اپنی خواہش کو عملی کتاب کے صفحوں پر اتارنا شروع کیا۔‘

رانیہ کے مطابق صرف پچھلے دو مہینوں میں ان کے فن خطاطی میں اتنی بہتری آئی کہ ان کو اپنا شوق مزید آگے لے جانے کا حوصلہ ملا ہے۔

محمد عمار

فیصل آباد کے رہائشی محمد عمار ٹیکسٹائل کے کاروبار سے منسلک تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کاروبار نے انہیں اتنا مصروف کر رکھا تھا کہ وہ کسی بھی مشغلے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پھر کرونا وائرس کی وبا آگئی اور وہ گھر میں محدود ہوگئے۔

عمار نے بتایا: ’فارغ وقت کا مصرف میں نے یہ نکالا کہ میں نے گھر میں جتنا بھی فالتو سامان تھا اس سے آرائش و زیبائش کی چیزیں بنانا شروع کیا۔ اس تخلیقی مشغلے سے مجھے ایک عجیب راحت سی محسوس ہونے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ اب گھر میں  بند  رہنے سے خوف محسوس نہیں ہوتا۔ ‘

گل رخ خان

گل رخ خان ایک گھریلو خاتون ہیں۔ تاہم ان کے مطابق زندگی صرف نوکری پیشہ خواتین و حضرات کی ہی نہیں بلکہ گھریلو خواتین کی بھی یکساں طور پر بدل گئی ہے۔ لہذا انہوں نے اپنے ساڑھے چار سالہ بیٹے کے ساتھ مل کر زندگی میں پہلی مرتبہ کچن گارڈننگ کا مشغلہ شروع کر دیا ہے۔

’میرا بیٹا ارحم میرے ساتھ بیٹھ کر بیج بونے سے لے کر پانی دینے کے مرحلے تک تمام سرگرمیوں میں ساتھ دیتا ہے۔ یوں ہم دونوں ماں بیٹا باغبانی کے اس مشغلے سے کافی خوشی محسوس کرنے لگے ہیں۔‘

امین خان

سوات کے امین خان پیشے کے لحاظ سے انجینیئر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ انگریزی سکولوں میں پڑھنے کی وجہ سے وہ اپنی مادری زبان پشتو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، لیکن لاک ڈاؤن کے دوران انہوں نے اس جانب توجہ دی۔

’کچھ عرصہ قبل مجھے پشتو لکھنے پڑھنے سے رغبت ہوئی تو مجھے لگا کہ پشتو سیکھنا کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں ہے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وقت نہیں ملتا تھا۔ تو آج کل پشتو لکھنا سیکھ رہا ہوں۔ اس کے علاوہ کافی مدت بعد دوبارہ انگریزی میں مختصر کہانیاں لکھنی بھی شروع کر دی ہیں۔‘

شاہدہ شاہ

پشاور سے پولیٹکل ایکٹویسٹ شاہدہ شاہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران گھر میں اپنے مددگاروں کی مدد سے گارڈننگ شروع کر دی ہے۔ شاہدہ کے مطابق اس مشغلے نے ان میں دوسری کئی اہم سرگرمیوں کے لیے جذبہ بیدار کیا اور انہیں بعض حقائق سے روشناس کروایا۔

’جیسے کہ جسمانی صحت، نفسیاتی صحت، مراقبہ،آرگینک خوراک، کھانے پکانے کی نئی ترکیبیں، کوکنگ میں دلچسپی کا پیدا ہونا اور زراعت سے دلچسپی کا بڑھنا۔ اس مشغلے نے مجھے وبا کے بعد کے حالات کے لیے پالیسی سازی اور اس پر کام کرنے کا شعور بھی دیا۔ ‘

عائشہ خان

عائشہ خان  پشاور میں میڈیکل یونیورسٹی کے تیسرے سال کی طالبہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کل وہ کھانا پکانے اور بیکنگ میں زیادہ تر وقت گزارتی ہیں۔

’امتحان کی تیاری کے ساتھ ساتھ میرا زیادہ تر وقت کوکنگ اور بیکنگ میں گزرتا ہے، جو کہ وبا سے پہلے ناممکن سی بات تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میری فیملی کے لیے بھی یہ ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔ وہ میرے بنائے ہوئے کھانوں کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ یہی وہ خوشی ہے جو مجھے بوریت اور ذہنی دباؤ سے دور رکھتی ہے۔‘

فائزہ حسن

فائزہ حسن ایک ملازمت پیشہ خاتون ہیں۔ وبا کے نتیجے میں جب دفتری کاموں سے فرصت ملی تو انہوں نے بیکنگ اور کوکنگ شروع کی۔

’میرے پاس کافی سارا فالتو وقت آگیا، کیونکہ پہلے تو دفتر سے تھکی ہاری آتی تھی تو کوکنگ اور بیکنگ کے لیے وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ مجھے کوکنگ پسند ہے لیکن اس سے بھی زیادہ مجھے بیکنگ میں دلچسپی ہے۔ میں ہفتے میں آج کل کم از کم تین مرتبہ کچھ نیا بناتی ہوں۔ اس طرح میں نے فیملی کو بھی خوش رکھا ہوا ہے۔ بلکہ اب تو وہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا فوڈ بزنس شروع کردوں۔ ‘

فرحت آصف

فرحت آصف کہتی ہیں کہ انہیں دنیا بھر سے دوست بنانے کا بہت شوق تھا۔ وبا کے ان دنوں میں وہ آج کل ان تمام لوگوں تک ای میل اور دوسرے ذرائع سے پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں جنہیں وہ مختلف آفیشل ٹورز اور تقاریب وغیرہ کے ذریعے جانتی تھیں۔

’یہ ایک بہت اچھا موقع ہے۔ میں آج کل نیٹ ورکنگ کر رہی ہوں۔ اگرچہ یہ میں ہمیشہ کرتی تھی لیکن آج کل وقت زیادہ ملا ہوا ہے۔ اس نیٹ ورکنگ سے مجھے اپنے پروفیشن میں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ‘

یہ تمام خیالات جان کر ایسا معلوم ہورہا ہے کہ اس وبا کے اختتام پر شاید بہت سے لوگوں کے ہاتھ نیا ہنر بھی آچکا ہو، جس سے انہیں آئندہ کے لیے منصوبہ بندی کرنے میں آسانی ہوگی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان