اہلیہ ویڈیو لنک پر جائیداد کے ذرائع بتانا چاہتی ہیں: جسٹس عیسیٰ

جسٹس فائز عیسیٰ آج سپریم کورٹ کے 10 رکنی بنچ کے سامنے خود پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ ان کی اہلیہ ویڈیو لنک کے ذریعے جائیداد کے ذرائع بتانا چاہتی ہیں۔

(ٹوئٹر)

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے خلاف صدارتی ریفرنس پر اپیلوں کی سماعت کے دوران بدھ کو خود سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

انہوں نے وفاقی حکومت کے وکیل اور سابق وزیر قانون بیرسٹر ڈاکٹر فروغ نسیم کے دلائل کے دوران 10 رکنی فل کورٹ سے بات کرنے کی اجازت طلب کی۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کرونا وبا کی وجہ سے چہرے پر ماسک پہن رکھا تھا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ماسک کی وجہ سے ان کی آواز صاف سنائی نہیں دے رہی۔

اس پر جسٹس عیسیٰ نے ماسک ہٹاتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی اہلیہ کی تلقین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے بینچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بحثیت درخواست گزار ذاتی حیثیت میں پیش ہو رہے ہیں۔ انہوں نے 15 منٹ تک دلائل دیتے کہا کہ ان کی اہلیہ ایف بی آر کو کچھ نہیں بتانا چاہتیں  اور وہ ویڈیو لنک پر جائیدادوں کی وضاحت دینا چاہتی ہیں، جس پر ججزکچھ دیر مشاورت کے لیے اٹھ کر اندر چلے گئے۔

گذشتہ روز اپیلوں کی سماعت کے دوران بینچ نے تجویز دی تھی کہ حکومت پہلے ایف بی آر کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی جائیدادوں سے متعلق ٹیکس معاملات دیکھ لے۔

اس پر حکومتی وکیل نے اپنے موکل سے مشاورت کے لیے ایک دن کی مہلت مانگی تھی اور آج انہوں نے کیس کی سماعت شروع ہونے پر بینچ کو بتایا تھا کہ وہ انہیں اس معاملے کو ایف بی آر کے سپرد کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔

جسٹس فائز عیسی کی آمد سے قبل سماعت کے دوران فروغ نسیم نے دلائل دوبارہ شروع کیے اور کہا کہ عدالت کے کل کے ایک سوال پر صدر مملکت اور وزیراعظم سے مشاورت کی ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ انہیں عدلیہ کا بڑا احترام ہے جبکہ انہیں معاملہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھیجنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سماعت کے دوران ہی فروغ نسیم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے جواب پر کہا کہ گذشتہ روز ایک جواب داخل کرایا گیا، جس پر وزیر اعظم نے کہا ہے لندن میں ان کی ایک پراپرٹی بھی نکلے تو ضبط کر لیں، مزید یہ کہ پراپرٹی ضبط کر کے پیسہ قومی خزانے میں ڈال دیں۔

اسی دوران بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ جج نے نہیں کہا یہ جائیدادیں وزیراعظم کی ہیں اس میں ویب سائٹ کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ قاضی فائز عیسیٰ کا مقدمہ نہیں بلکہ سب کا مقدمہ ہے۔ ’ہم پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ جج مجھے بچانا چاہتے ہیں۔‘

بنچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس عیسی کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ حکومت وکیل کو سن رہے ہیں اور یہ مناسب نہیں کہ ان کو دلائل سے روک کر کسی کو موقع دیا جائے۔

جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ حکومت نے عدالتی تجویز سے اتفاق کیا ہے لہذا انہیں اس کا جواب دینا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ اپنی اہلیہ کا مؤقف عدالت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ’آج اپنی اہلیہ کا اہم پیغام لایا ہوں جو جائیدادوں کے ذرائع بتانا چاہتی ہیں۔ اہلیہ ویڈیو لنک کے ذریعے جائیداد سے متعلق بتانا چاہتی ہیں لہذا عدالت انہیں موقع دے۔

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اہلیہ کا بیان بڑا اہم ہوگا۔ انہوں نے درخواست کی کہ وہ تحریری جواب داخل کرا دیں۔ تحریری جواب آنے کے بعد سماعت کا تعین کیا جائے گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ اپنی بیوی کے وکیل نہیں صرف ان کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی اہلیہ وکیل نہیں ہیں اور انہی کسی وکیل کی معاونت نہیں ہوگی۔ انہوں نے اس شک کا اظہار کیا کہ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ اکاؤنٹ بتانے پر حکومت اس میں پیسہ ڈال کر نیا ریفرنس نہ بنا دے لہذا وہ تحریری جواب جمع کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ’اہلیہ کا مؤقف سن کر جتنے مرضی سوال کریں۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وہ ان کی پیشکش پر مناسب حکم جاری کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان