ہائی کمیشن کے عملے میں 50 فیصد کمی سے کیا فرق پڑے گا؟

بھارت کی جانب سے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے میں 50 فیصد کمی کرنے کی ہدایت کے جواب میں پاکستان نے بھی بھارتی ہائی کمیشن سے اپنے عملے میں 50 فیصد کی کمی کا کہا ہے۔

بھارتی دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق بھارت بھی پاکستان میں اپنے ہائی کمیشن میں عملے کو بتدریج 50 فیصد تک کم کرے گا (اے ایف پی)

بھارت کی جانب سے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے میں 50 فیصد کمی کرنے کی ہدایت کے جواب میں پاکستان نے بھی بھارتی ہائی کمیشن سے اپنے عملے میں 50 فیصد کی کمی کا کہا ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارتی ناظم الامور گوررو آلووالیا کو منگل کو طلب کرکے مراسلہ حوالے کیا اور کہا کہ بھارتی ہائی کمیشن کا پچاس فیصد عملہ بھی سات روز کے اندر پاکستان سے واپس چلا جائے۔

اس سے قبل منگل ہی کی سہ پہر بھارتی دفتر خارجہ نے پاکستانی ناظم الامور کو طلب کر کے بھارتی حکومت کے فیصلے سے آگاہ کیا تھا کہ پاکستان سات روز کے اندر دہلی میں اپنے ہائی کمیشن کے عملے کی تعداد 50 فیصد کم کرے۔

بھارتی دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق بھارت بھی پاکستان میں اپنے ہائی کمیشن میں عملے کو بتدریج 50 فیصد تک کم کرے گا۔

بھارت کے اقدام کے بعد ایک بیان میں پاکستان نے بھارت کی جانب سے سفارتی اہلکاروں پر لگائے گئے جاسوسی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی کے مطابق بھارتی دفتر خارجہ نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اور کسی بھی بھارتی سفارتی اہلکار کو اسلام آباد میں ہراساں نہیں کیا گیا۔ 

عائشہ فاروقی نے مزید کہا کہ بھارت کا یہ حالیہ اقدام لداخ میں چین کے ہاتھوں شکست کا ردعمل ہے۔

دونوں ملکوں کی جانب سے یہ ایک اہم فیصلہ ہے جس سے مشن کے کام پر اثر پڑ سکتا ہے۔ سفارتی عملہ کم ہونے کے باعث اتنے بڑے اور حساس مشن میں کام کیسے ہو گا؟

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ تسنیم اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ویزے اور تجارت تو ہو ہی نہیں رہے تو ایسے حالات میں مشن بند بھی ہو جائے تو کیا فرق پڑے گا؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ایسا صرف جنگی حالات میں ہی ہوا ہے کہ عملہ اتنی تعداد میں واپس چلا جائے۔ ’اب بھی اگر جنگی حالات نہیں تو نارمل حالات بھی نہیں ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ اور وزیر اعظم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشن متوقع ہے چونکہ بھارت تمام حالات کو صرف پاکستان بھارت ٹینشن پر رکھنا چاہتا ہے ’لیکن بھارت اس میں کس حد تک آگے جائے گا تو اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہو گا۔‘

بھارتی وزارت خارجہ کے بیان میں اپنے اس عمل کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’پاکستانی عملہ جاسوسی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔‘ بیان میں گذشتہ دنوں حراست میں لیے گئے دو سٹاف ممبرز کا حوالہ بھی دیا گیا اور یہ الزام بھی لگایا گیا کہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے دو اہلکاروں کے ساتھ ناروا رویہ اختیار کیا گیا۔

اس حوالے سے بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اچھا ہوتا اگر یہ قدم پہلے پاکستان نے اُٹھایا ہوتا۔ خارجہ پالیسی میں بروقت ردعمل نہ دیا جائے تو معاملات ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔‘

سابق سفیر نے کہا کہ اُن کے دور 2016 میں بھی بھارت نے دو سفارتی اہلکاروں پر جاسوسی کا الزام لگا کر واپس بھیجا تھا اور جواباً پاکستان نے آٹھ سفارتی اہلکار واپس بھیجے تھے۔

انہوں نے کہا کہ تب سے عملے کی تعداد دونوں اطراف بتدریج کم ہوتی گئی اور سرحدی حالات کے باعث گذشتہ برس سے پاکستان بھارت میں ہائی کمشنر تو ویسے بھی نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کہتے ہیں کہ ’اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں ہمیشہ پاکستان مخالف بیانیے کو ہی پذیرائی ملی ہے اس لیے چین کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں اور شکست کے بعد بھارت اپنی عوام کو یہ باور کرونا چاہتا ہے کہ چونکہ اس سارے معاملے کے پیچھے پاکستان تھا اس لیے ہم 50 فیصد عملہ کم کر کے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کر رہے ہیں۔‘

دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کا ردعمل

دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی پریس آفیسر معاذ طارق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جو ڈی مارش دیا گیا ہے اُس میں پاکستان کے پاس آپشن نہیں ہے بلکہ سات روز میں 50 فیصد عملہ ہر صورت واپس جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اب فہرستیں بن رہی ہیں کہ کس نے واپس جانا ہے اور کون دہلی میں رُکے گا اور کل تک فہرست بنا لی جائیں گی۔

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی معاہدے کے مطابق دونوں اطراف عملے کی تعداد 106 ہے لیکن گذشتہ دو تین سالوں میں غیر اعلانیہ طور پر یہ تعداد کم ہوئی ہے۔

معاذ طارق سے اس حوالے سے سوال پوچھا تو انہوں نے تصدیق کی کہ اب سٹاف کم ہے اور لگ بھگ 80 کے قریب عملہ موجود ہے۔

آیا بھارتی حکومت کی جانب سے دیے گئے مراسلے کے مطابق یہ 50 فیصد عملے کی کمی موجودہ سٹاف پر ہو گی یا معاہدے کے مطابق تعداد پر ہو گی اس سوال پر انہوں نے کہا کہ ابھی تک کی یہی اطلاع ہے کہ دستاویزات کے مطابق ہی ہو گی۔

معاہدے کے مطابق 50 فیصد عملے کی کمی کے بعد دونوں اطراف میں تعداد 53 ہو جائے گی جبکہ اگر موجودہ تعداد پر کمی کی گئی تو ممکنہ طور پر 40 کے لگ بھگ تعداد رہے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا