’گذشتہ دہائی کے تین بڑے فضائی حادثوں میں پائلٹ کی غلطی تھی‘

وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان نے پی آئی اے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ 'ان رپورٹس کا مطلب کسی کو الزام دینا نہں بلکہ وجہ جاننا اور پھر اصلاح کرنا ہوتا ہے۔'

وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان (سکرین گریب)

وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور کا کہنا ہے کہ گذشتہ دس سالوں میں ملکی تاریخ میں ہونے والے بڑے فضائی حادثوں کی انکوائری رپورٹس میں تین حادثوں میں پائلٹس کی غلطی کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ ایک حادثے کی وجہ فنی خرابی تھی۔

 22 مئی کو کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے مسافر طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ اور ماضی میں دیگر فضائی حادثات کی وجوہات قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے بعد میڈیا بریفنگ کے دورن وفاقی وزیر نے بتایا کہ 2010 میں ہونے والا ایئر بلیو طیارہ حادثہ، 2012 میں ہونے والا بھوجا طیارہ حادثہ اور پی آئی اے طیارہ حادثہ پائلٹس اور کاک پٹ کریو کی غلطی کی وجہ سے ہوا جبکہ حویلیاں میں پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے کو پیش آنے والا حادثہ فنی خرابی کی وجہ سے پیش آیا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'ان رپورٹس کا مطلب کسی کو الزام دینا نہں بلکہ وجہ جاننا اور پھر اصلاح کرنا ہوتا ہے۔'

وفاقی وزیر غلام سرور خان نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں 860 پائلٹس میں سے 262 پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ 'ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں کہ ہمارے 40 فیصد پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ ہم نے کارروائی شروع کردی ہے۔ 54 میں سے 28 کو اظہار وجوہ کا نوٹس دیا گیا۔ نو پائلٹس نے اعتراف بھی کرلیا ہے لیکن کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا۔'

انہوں نے کہا اس معاملے کو سیاست زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ قومی سلامتی کا ہے۔

پی آئی اے طیارہ حادثہ: 'پائلٹس کی توجہ پرواز کی بجائے کرونا پر تھی'

اس سے قبل غلام سرور خان نے بدھ کو اسمبلی کے فلور پر پائلٹس اور کنٹرولر کو حادثے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پی آئی اے کا طیارہ 8303 فضائی پرواز کے لیے سو فیصد ٹھیک تھا اور اس میں کسی قسم کا کوئی نقص نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے دوران وائس ریکارڈر سے ساری باتیں خصوصاً آخری آدھے گھنٹے کی پوری بات چیت سنی گئی، کاک پٹ میں ساری گفتگو صرف کرونا وائرس کے حوالے سے تھی اور پائلٹس کی توجہ فلائٹ کی بجائے کرونا وائرس پر تھی۔

انہوں نے بتایا، 'جب کنٹرول ٹاور نے توجہ دلائی تو پائلٹ نے کہا میں مینج کرلوں گا، پھر وہ کرونا پر بات کرنا شروع ہوگئے کیونکہ ان کے خاندان کرونا سے متاثر تھے۔ پائلٹ اور کو پائلٹ ضرورت سے زیادہ پر اعتماد تھے جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔'

انہوں نے مزید کہا کہ 'جو دنیا سے چلے گئے ہیں اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے لیکن جو ذمہ دار حیات ہیں ان کے خلاف ضرور کارروائی ہوگی، مکمل رپورٹ ایک سال میں آئے گی۔'

غلام سرور خان نے کہا کہ پائلٹ اور معاون دونوں طبی طور پر صحت مند تھے، پائلٹ نے کسی تکنیکی خرابی کی نشاندہی نہیں کی۔ رپورٹ کے مطابق رن وے سے 10 میل کے فاصلے پر جہاز کو ڈھائی ہزارفٹ کی بلندی پر ہونا چاہیے تھا مگر وہ سات ہزار 200 فٹ کی بلندی پر تھا۔' کنٹرولر نے تین مرتبہ پائلٹ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ آپ کی اونچائی زیادہ ہے، لینڈ نہ کریں اور چکر لگا کر آئیں۔ پائلٹ نے ہدایات کو نظر انداز کردیا۔'

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 'رن وے سے 10 ناٹیکل مائلز پر جہاز کے گیئر کھولے گئے جو پانچ ناٹیکل مائلزپر پہنچنے کے بعد اوپر کر دیے گئے۔ جہاز جب رن وے پر ہو تو ٹوٹل لینتھ 11 ہزار اور 15 ہزار تک ٹچ ڈاؤن کرنا چاہیے مگر وہ لینڈنگ گیئر کے بغیر 4500 فٹ پر انجن پر ٹچ ڈاؤن کرتا ہے۔ تین بار جہاز لگتا ہے اور جمپ لیتا ہے اور جہاز تین ہزار سے چار ہزار فٹ پر رگڑے کھاتا رہا جس سے انجن خراب ہوگیا۔'

'اسی وجہ سے جہاز دوبارہ اٹھایا گیا، اس میں کوتاہی دونوں طرف سے تھی جب جہاز کے انجن سے آگ نکلتے دیکھی گئی تو کنٹرول ٹاور کو پائلٹ کو بتانا چاہیے تھا۔ جہاز جب دوبارہ ٹیک آف ہوا تو دونوں انجن فیل ہوچکے تھے اور جب دوبارہ اس نے اپروچ چاہی تو اسے جس جگہ کی ہدایات کی گئی وہ وہاں نہیں پہنچا اور سول آبادی پر گھر گیا۔ پائلٹ نے آخر میں تین بار یااللہ، یا اللہ، یااللہ کہا۔'

واضح رہے کہ 22 مئی 2020 کو پی آئی اے کا مسافر طیارہ ایئربس اے 320 لاہور سے کراچی آتے ہوئے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈنگ سے چند منٹ قبل تکنیکی خرابی کے باعث قریبی آبادی پر گر گر تباہ ہو گیا تھا۔ طیارے میں کل 99 افراد سوار تھے، جن میں سے 97 افراد ہلاک جبکہ دو افراد معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔

پی آئی اے اے ٹی آر فلائٹ PK-661 طیارہ حادثہ

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے 2016 میں تباہ ہونے والے اے ٹی آر طیارے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ بھی حکومت کو پیش کردی گئی ہے۔ سول ایوی ایشن حکام کے مطابق رپورٹ کے مندرجات میں کہا گیا کہ دسمبر 2016 میں پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے نے چترال سے اسلام آباد کے لیے اُڑان بھری تو انجن کی پاور ٹربائن کا سٹیج ون بلیڈ یعنیٰ (PT 1 ) بلیڈ ٹوٹ کراپنی جگہ سے ہٹا جس سے پاور ٹربائن شافٹ کی گردش متاثر ہوئی جب کہ او ایس جی پن بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔

تحقیقاتی ٹیم نے شبہ ظاہر کیا کہ پاور ٹربائن سٹیج ون بلیڈ اور او ایس جی پن حادثے سے پہلے ہی پشاور سے چترال آنے کے دوران ٹوٹ چکے تھے مگر پھر بھی طیارے کو اگلی پرواز کے لیے روانہ کردیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکہ میں او ایس جی پن کے دھاتی تجزیے سے پتا چلا کہ مینٹینس کے دوران اسے غلط طور پر فٹ کیا گیا تھا، طیارے کی آخری مینٹینس کینیڈا میں ہوئی تھی جہاں نہ صرف او ایس جی کی موڈی فکیشن کی گئی بلکہ پارٹ نمبر بھی تبدیل کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق انجن کے ڈیزائن میں تبدیلی مینوفیکچرر کی غلطی تھی جسے درست کرنے کے لیے بہتر ڈیزائن تجویز کیا گیا مگر پی آئی اے طیارے کی خرابیاں دور کرنے کا عمل بروقت مکمل نہ کر سکی جب کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بھی اس عمل کی درست نگرانی نہیں کی۔

رپورٹ میں حادثے کے ذمہ داروں کا حتمی تعین نہیں کیا گیا، تاہم یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ حادثہ فنی خرابیوں، غلط مینٹینس اور انسانی کوتاہیوں کے نتیجے میں پیش آیا اور اس لحاظ سے پی آئی اے، سول ایوی ایشن اتھارٹی، طیارہ اور انجن ساز کمپنی ذمہ دار قرار پاتے ہیں۔ وفاقی وزیر نے بھی میڈیا سے گفتگو میں تصدیق کی کہ حویلیاں حادثہ فنی خرابی کے باعث پیش آیا تھا۔

واضح رہے کہ پی کے 661 نے سات دسمبر 2016 کو چترال سے اسلام آباد کے لیے اُڑان بھری تھی لیکن حویلیاں کے نزدیک پہاڑوں پر گر کر تباہ ہو گیا۔ اس فلائٹ میں معروف شخصیت جنید جمشید سمیت 47 مسافر سوار تھے۔ کنٹرول ٹاور سے آخری گفتگو میں جہاز کے پائلٹ نے اُڑان بھرنے کے کچھ دیر بعد ہی جہاز کے انجن میں پیدا ہونے والی خرابی کا بتایا تھا۔

ایئر بلیو اے-321 طیارہ حادثہ 

پاکستان کی فضائی تاریخ کا ایک اور جان لیوا حادثہ 28 جولائی 2010 کو پیش آیا جب پاکستان کی نجی کمپنی ایئربلیو کا کراچی سے اسلام آباد جانے والا طیارہ لینڈنگ کے دوران مارگلہ کی پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں طیارے میں سوار 152 مسافر ہلاک ہو گئے تھے۔

ایئر بلیو طیارہ حادثے کے حوالے سے کوئی بھی واضح رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی تھی۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مطابق پرانے اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈنگ کرتے وقت کسی بھی طیارے کو پانچ ناٹیکل مائلز سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں کیونکہ اس سے تجاوز کرنے پر طیارہ نو فلائی زون یا ریڈ زون میں جا سکتا ہے۔ سول ایوی ایشن حکام کے مطابق ایئر بلیو کا طیارہ حادثے کے 9.66 ناٹیکل مائلز یعنی نو فلائی زون پر تھا۔

ایئر ٹریفک کنٹرول اور پائلٹ کے درمیان آخری بات چیت میں پائلٹ کو وارننگ دی گئی تھی کہ وہ غلط جانب مڑ گئے ہیں اور رن وے سے دور جا رہے ہیں۔ اس پر پائلٹ نے جواب دیا تھا کہ وہ رن وے دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد کنٹرول ٹاور نے دوبارہ وارننگ دی کہ فوراً بائیں مُڑ جائیں سامنے مارگلہ کی پہاڑیاں ہیں، پائلٹ کا پھر جواب آیا کہ ہم مارگلہ کی پہاڑیاں دیکھ سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سول ایوی ایشن حکام کے مطابق دو وارننگز کے باوجود جہاز کو دائیں یا بائیں موڑنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی اور جہاز مارگلہ کی پہاڑی سے ٹکرا گیا۔

ایئر بلیو طیارہ حادثے کے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ کے صدر ایئر کموڈور خواجہ ایم مجید کی سربراہی میں سات رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی جس میں تکنیکی اور آپریشنل فیلڈ میں مہارت رکھنے والے افراد اور ایئربلیو کا ایک نمائندہ بھی شامل تھا۔

اس حادثے کے بعد بہت سی سازشی تھیوریز نے جنم لیا، تاہم بدھ کو ہونے والی میڈیا ٹاک میں وفاقی وزیر برائے ہوا بازی نے تفصیلات فراہم نہ کرتے ہوئے محض اتنا بتایا کہ ایئربلیو حادثے کی رپورٹ کے مطابق حادثہ جہاز کے کاک پٹ کریو کی غلطی کے باعث پیش آیا۔

مئی میں حالیہ فضائی حادثہ ہونے کے بعد ایوان میں ایئر بلیو حادثے پر دوبارہ سوالات اُٹھائے گئے تھے، جس پر ان رپورٹس کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا گیا۔

بھوجا ایئر کا بوئنگ 737 طیارہ حادثہ 

پاکستانی نجی کمپنی بھوجا ایئر لائنز کا مسافر طیارہ 20 اپریل، 2012 کو کراچی سے اسلام آباد آ رہا تھا لیکن اسلام آباد ایئرپورٹ سے ساڑھے پانچ کلو میٹر دور راولپنڈی کے علاقے حسین آباد میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ جہاز میں 121 مسافر جبکہ عملے کے چھ ارکان سوار تھے۔

جہاز کی لینڈنگ کے وقت پیش آنے والے اس حادثے کے دوران اسلام آباد میں گرج چمک کے ساتھ طوفانی بارش بھی جاری تھی۔ اس وقت امکان یہی ظاہر کیا گیا تھا کہ موسم کی خرابی حادثے کی وجہ بنی، تاہم  وفاقی  وزیر  برائے ہوا بازی غلام سرور نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے پاس موجود رپورٹس کے مطابق بھوجا ایئرلائن حادثہ بھی پائلٹ کی غلطی کے باعث پیش آیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان