عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کیا؟

عمران خان کافی جذباتی انسان ہیں اور لگتا ہے کہ اس مرتبہ بھی جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ اب اسے واپس نہیں لایا جاسکتا لیکن خدشہ یہی ہے کہ ماضی کے طالبان خان کی طرح بن لادن بھی اب ان کی جان نہیں چھوڑے گا۔

عمران خان بولتے کسی ایک اہم ترین ایشو پر ہیں لیکن میڈیا اس دوران کسی غلط تاریخی حوالے یا بغیر سوچے سمجھی بات کو لے اڑتا ہے (اے ایف پی)

عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کیا؟ حکومت چلانے میں ناتجربہ کاری؟ فیصلے صرف اپنی سوچ کے مطابق کرنا؟ کسی کی رائے کی پرواہ نہ کرنا یا ناتجربہ کار کابینہ؟ شاید ان میں سے کچھ بھی نہیں۔ اصل مسئلہ ان کا لکھی ہوئی تقریر کبھی نہ کرنے کا مسلسل اصرار ہے۔

بولتے کسی ایک اہم ترین ایشو پر ہیں لیکن میڈیا اس دوران کسی غلط تاریخی حوالے یا بغیر سوچے سمجھی بات کو لے اڑتا ہے۔ یہی کچھ جعمرات کو ان کی پارلیمان میں غیرمعمولی موجودگی اور ایک گھنٹہ 13 منٹ کی تقریر کے دوران ہوا۔ انہوں نے پورے ایوان کو کرونا (کورونا) وائرس، معیشت، خارجہ پالیسی اور کئی دیگر انتہائی اہم ترین مسائل پر اعتماد میں لینے کی کوشش کی لیکن جو جملہ بعد میں میڈیا میں زیادہ زیربحث رہا وہ ان کا القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو ’شہید‘ قرار دینا تھا۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ٹوئٹر پر ’عمران بن لادن‘ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ان پر ’طالبان خان‘ ہونے کا الزام تو طویل عرصے سے لگ رہا تھا، اب انہیں بن لادن سے بھی جوڑ دیا گیا ہے۔ اپوزیشن کے مطالبے کے باوجود وزیر اعظم ہاؤس نے 18 گھنٹوں بعد تک کوئی وضاحت یا تردید جاری نہیں کی۔

تاہم وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ اسامہ بن لادن کے لیے وزیر اعظم نے دو مرتبہ قتل کا لفظ استعمال کیا۔ اب یہ وضاحت تھی یا مزید ابہام پیدا کرنے کی کوشش۔

اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کے بقول اس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم اپنی بات پر قائم ہیں۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے عمران خان کے دفاع میں کہنے کی کوشش کی کہ یہ ’سلپ آف ٹنگ‘ (زبان پھسل جانا) تھی لیکن مخالفین ان کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری خود ایک حالیہ انٹرویو میں عمران خان کی ناراضی کے مستحق ٹھہرے جس میں انہوں نے حکمراں جماعت تحریک انصاف کے اندر اسد عمر اور جہانگیر ترین کی مبینہ قیادت میں دو دھڑوں میں تقسیم ہونے کی بات کی تھی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے، جو اس وقت ایوان میں عمران خان کی بغل میں بیٹھے تھے، بھی بعد میں صحافیوں سے گفتگو میں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی۔ عمران خان کافی جذباتی انسان ہیں اور لگتا ہے کہ اس مرتبہ بھی جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ اب اسے واپس نہیں لایا جاسکتا لیکن خدشہ یہی ہے کہ ماضی کے طالبان خان کی طرح ان کا بن لادن بھی اب جان نہیں چھوڑے گا۔

ماضی میں جب تحریک انصاف حکومت میں نہیں تھی تو عمران خان خطے میں امریکی پالیسیوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔ انہوں نے ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان میں بھرپور مہم چلائی اور قبائلی علاقے وزیرستان تک احتجاجی مارچ بھی کیا اور دستخط مہم چلائی۔

ان کا اصرار رہتا تھا کہ ڈرون حملے اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی ہیں اور قانون کسی مشتبہ شخص کو اس کے اہل خانہ سمیت مارنے کی اجازت نہیں دیتا چاہیے وہ دنیا کا نمبر ون دہشت گرد ہی کیوں نہ ہو۔ اس وجہ سے عمران خان پاکستانی شدت پسندوں کی 'گڈ بکس' میں رہے اور انہوں نے کبھی انہیں تنگ نہیں کیا۔

تاہم پاکستان کی سول سوسائٹی اور لبرل پارٹیاں اس سے متفق نہیں رہیں۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر عمران خان کے بارے میں کہتی تھیں کہ وہ طالبان کے جاسوس ہیں۔ ان کی اپنی جماعت کے سابق رہنما جاوید ہاشمی کا ان پر الزام تھا کہ ڈرون مخالف مہم عمران خان کے کہنے پر نہیں بلکہ فوج کے کہنے پر چلا رہے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا: ’کراچی میں گاڑی چلاتے ہوئے بتایا کہ پاشا صاحب سے بات ہو گئی ہے۔‘ شجاع پاشا سابق سربراہ آئی ایس آئی تھے۔

عمران خان ہمیشہ افغانستان میں بھی طاقت کی بجائے سیاسی حل کی بات کرتے ہیں۔ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کا بھی وہ کریڈٹ لیتے ہیں لیکن ماضی میں مسئلہ یہ رہا کہ نہ امریکہ اور نہ ہی طالبان بات چیت کے لیے تیار رہے۔ تاہم پاکستان میں بڑی تعداد میں لوگ اسامہ کو ہزاروں پاکستانیوں کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔  ٹوئٹر کے ایک صارف ایس ایم طارق نے تنقید کچھ یوں کی۔

کئی لوگوں کو لاہور کے لبرل ایچی سن کالج، کیتھڈرل سکول، برطانیہ میں رائل گرامر سکول کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے عمران خان کے بائیں بازو کے سیاست دان ہونے پر حیرت ہوتی ہے۔

کرسٹوفر سینڈفورڈ نے اپنی کتاب ’عمران خان: دی کرکٹر، دی سلیبرٹی، دی پالیٹیشن‘ میں عمران خان کی جوانی کے قصے تفصیل سے لکھے ہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ عمران خان 41 سال کے تھے جب انہوں نے اپنا 'پلے بوائے' والا تاثر بتدریج کم کرنا شروع کر دیا تھا۔ انہیں میاں بشیر کی صورت میں ایک روحانی استاد ملے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر سیاست کے میدان میں انہوں نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور ہارڈ لائنر جنرل حمید گل اور محمد علی درانی سے ہاتھ ملا لیے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ تحریک انصاف ’طالبان کے سرپرست‘ مولانا سمیع الحق کے بھی قریب آئے اور ان کے مدرسے کے لیے، جسے دنیا ’یونیورسٹی آف جہاد‘ کے نام سے جانتی ہے، خطیر سرکاری امداد مختص کی۔ انہیں جنرل پرویز مشرف کی شفقت بھی میسر رہی۔

پی ٹی آئی اپنے حامیوں کی وجہ سے پڑھی لکھی لبرل جماعت سمجھی جاتی رہی ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس کی قیادت قدامت پسند رہی ہے۔ تحریک انصاف جس کے کارکنان دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی طرح نظریاتی نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کسی تربیت کے عمل سے گزرے ہیں۔ بعض پارٹی حامی ان کے اس بیان کا بھی دفاع کر رہے ہیں۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ