فاسٹ یونیورسٹی سزائیں: 'سابق طلبہ کی ایک میم قابل اعتراض تھی'

فاسٹ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے لاہور کیمپس میں تقریباً تین درجن زیر تعلیم طالب علموں اور ڈگریاں حاصل کرلینے والے سابق طلبہ کو فیس بک پر میمز لگانے پر مختلف سزائیں دی ہیں۔

تمام طلبہ کو نامناسب میمز فیس بک پر سے ہٹانے اور اپنے اپنے پیجز پر غیر مشروط معافی پوسٹ کرنے کے علاوہ یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی تحریری معافی نامہ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے (تصویر: فاسٹ یونیورسٹی فیس بک پیج)

'میرے سر میں یہ سوچ سوچ کر مستقل سر درد ہو رہا ہے کہ اب میرا ایک سال اور میرے والدین کے ڈیڑھ لاکھ روپے ضائع ہوں گے۔ کیا چند ایک مزاحیہ میمز بنانے اور سوشل میڈیا پر لگانے کی اتنی بڑی سزا ہو سکتی ہے؟'

یہ سطور لاہور میں فاسٹ یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے اپنی فیس بک وال پر لکھی ہیں، جنہیں یونیورسٹی سے متعلق طنزیہ اور مزاحیہ میمز فیس بک پر لگانے کی پاداش میں سزا کے طور پر ایک سیمسٹر کے لیے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ہے۔

طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'اب مجھے وہی مضامین دوبارہ پڑھنے اور پاس کرنے کے علاوہ اس سیمسٹر کی دوبارہ فیس بھی ادا کرنا ہو گی۔'

فاسٹ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے لاہور کیمپس میں تقریباً تین درجن زیر تعلیم طالب علموں اور ڈگریاں حاصل کرلینے والے سابق طلبہ کو فیس بک پر میمز لگانے کی سزا دی ہے۔

زیر تعلیم طلبہ میں سے بعض کو ایک ایک سیمسٹر کے لیے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا، کئی دوسروں کے گریڈز کم کرنے کا اعلان کیا گیا جبکہ جو طلبہ ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں ان کی ڈگریوں کی منسوخی، بلیک لسٹ کرنے یا سائبر کرائم قوانین کے تحت کارروائی کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔

یونیورسٹی میں کم از کم تین طلبہ کو کمیونٹی سروس کے طور پر یونیورسٹی کھلنے کے بعد چار ہفتوں تک روزانہ ایک گھنٹہ جامعہ کے سبزہ زاروں اور ارد گرد کی سڑکوں سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کی بھی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

تمام طلبہ کو مذکورہ میمز فیس بک پر سے ہٹانے اور اپنے اپنے پیجز پر غیر مشروط معافی پوسٹ کرنے کے علاوہ یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی تحریری معافی نامہ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

میمز میں کیا تھا؟

انڈپینڈنٹ اردو نے سزا یافتہ فاسٹ یونیورسٹی کے کئی طلبہ سے گفتگو کی، جنہوں  نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا  کہ کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے یونیورسٹی بند ہونے کے بعد انہوں نے فیس بک پر ایک پیج بنایا، جسے وہ لوگ معاشرتی رابطوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔

ایک طالب علم نے بتایا: 'ہم عام طور پر نہایت ہی بےضرر مواد اس فیس بک پیج پر لگاتے تھے، جس کا تعلق ہمارے ان مسائل سے ہوتا تھا جو ہمیں کیمپس میں پیش آتے۔'

ایک دوسرے طالب علم کا کہنا تھا کہ 'یونیورسٹی کے سابق طلبہ نے کچھ ایسا مواد پوسٹ کیا تھا جو قبل اعتراض تھا۔' ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ وہ مواد ان کے پیج پر نہیں تھا بلکہ ان لوگوں کو اس میں ٹیگ کیا گیا تھا اور یونیورسٹی انتظامیہ کے نوٹس لیتے ہی اسے ہٹا دیا گیا۔

ایک سیمسٹر ضائع کرنے والے ایک طالب علم نے بتایا: 'سابق طلبہ نے یونیورسٹی کی ایک خاتون استاد اور ایک دوسرے ملازم کے مبینہ جنسی تعلقات پر میم بنا کر فیس بک پر لگائی اور ہم سب کو اس میں ٹیگ بھی کیا، اسی سے مسئلہ پیدا ہوا۔'

فاسٹ یونیورسٹی لاہور کے ایک ملازم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ 'یونیورسٹی میں طالب علموں کو اکثر مسائل اور شکایات ہوتی ہیں، جن پر وہ تنقید بھی کرتے رہتے ہیں۔ تاہم کسی فیکلٹی ممبر کی کردار کشی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، خصوصاً جب وہ ایک خاتون ہوں۔'

یونیورسٹی نے تحقیقات کیسے کیں؟

ایک سزا یافتہ طالب علم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں ایک ای میل ملی کہ فلاں تاریخ کو آپ نے سینٹرل ڈسپلنری کمیٹی (سی ڈی سی) کے سامنے پیش ہونا ہے، لیکن انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ 'یہ پیشی آن لائن تھی، جس دوران مجھے میرا کیمرہ آن رکھنے کو کہا گیا جبکہ انہوں نے اپنا کمرہ بند رکھا ہوا تھا اور میں اپنی سکرین پر دیکھ سکتا تھا کہ وہ مجھے ریکارڈ بھی کر رہے تھے۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ دوسری طرف کچھ اساتذہ کے علاوہ یونیورسٹی انتظامیہ کے ایک دو افراد موجود تھے، جو مجھ سے تابڑ توڑ سوالات کر رہے تھے۔ 'میں نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ یہ میمز میں نے بنائی ہیں اور نہ ہی فیس بک پر پوسٹ کی ہیں بلکہ اس مواد میں مجھے ٹیگ کیا گیا ہے۔ میں انہیں سمجھا ہی رہا تھا کہ ہماری بحث شروع ہو گئی اور شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے مجھے بھی سزا دینے کا فیصلہ کیا۔'

ایک دوسرے طالب علم نے کہا کہ 'یونیورسٹی انتظامیہ جامعہ سے فارغ التحصیل طالب علموں کو تو کوئی سزا نہیں دے سکتی، اس لیے انہوں نے ہمیں قربانی کا بکرا بنایا حالانکہ انہیں اندزاہ ہے کہ قابل اعتراض مواد ان لوگوں نے لگایا تھا جن کا یونیورسٹی سے اب کوئی تعلق نہیں۔'

آگے کیا ہو گا؟

فاسٹ یونیورسٹی لاہور کی انتظامیہ نے سزا یافتہ افراد کو 15 روز کے اندر فیصلوں کے خلاف اپیل دائر کرنے کا حق دیا ہے۔

ایک سزا یافتہ طالب علم محمد انس بھٹی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ ایک دو روز میں اپیل دائر کر دیں گے۔ دوسرے طالب علم بھی اپیلیں دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ہمارے پاس یہی ایک حل ہے۔

ایک دوسرے طالب علم کا خیال تھا کہ اپیل سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اپیل اسی کمیٹی کو جائے گی جس نے سزائیں سنائی ہیں۔

اس سلسلے میں یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اپیلوں کو جامعہ کے قواعد و ضوابط کے مطابق دیکھا جائے گا۔

فاسٹ یونیورسٹی لاہور کے مینیجر اکیڈمکس سیف اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سینئیر اساتذہ اور اہلکاروں پر مشتمل ایک کمیٹی نے قابل اعتراض میمز بنانے والوں کو تلاش کیا اور پھر ان سے انٹرویوز بھی کیے۔

انہوں نے کہا کہ 'کمیٹی میں سائبر کرائم اور دوسرے متعلقہ افراد شامل تھے، جنہوں نے کافی محنت کے بعد ملوث طلبہ کا پتہ لگایا۔'

سیف اللہ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے جان بوجھ کر سزائیں کم رکھی ہیں تاکہ طالب علموں کے کیریئر پر زیادہ اثر نہ پڑے۔ 'ہم تو انہیں یونیورسٹی سے نکال بھی سکتے تھے یا کم از کم پورے سال کے لیے ڈیموٹ کر دیتے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔'

انہوں نے بعض طلبہ کی طرف سے اس الزام کی بھی تردید کی کہ قابل اعتراض میمزسابق طلبہ نے لگائی تھیں۔ 

ساتھ ہی انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا: 'اس سلسلے میں ہم نے ماہرین کی خدمات حاصل کی تھیں اور انہوں نے بالکل ٹھیک ٹھیک طلبہ کی نشاندہی کی جنہوں نے وہ میمز بنائی اور لگائی تھیں۔'

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس