سندھ: ’102 ہندوؤں نے خوشی سے اسلام قبول کر لیا‘

اسلام قبول کرنے والے محمد اسلم شیخ کہتے ہیں کہ ’مقامی مسلمان ساتھ کھانا کھانا تو دور کی بات ہاتھ بھی نہیں ملاتے تھے۔ مگر مذہب کی تبدیلی کے بعد اب نہ صرف ساتھ کھانا کھلاتے ہیں ساتھ میں گلے بھی ملتے ہیں۔‘

اسلام قبول کرنے والوں میں بوڑھے، جوان، بچے اور خواتین شامل ہیں (تصویر: محمد حنیف زئی)

پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع بدین کے ایک گاؤں میں سندھ کے سودیشی ہندؤں کی بھیل ذات سے تعلق رکھنے والے 102 افراد نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کر لیا ہے۔

ضلع بدین کی تحصیل گولاڑچی کے نواحی گاؤں گوٹھ حبیب الرحمان پسیو میں اسلام  قبول کرنے والے 12 ہندو خاندان کے 102 افراد میں نوجوان اور بوڑھے مردوں کے ساتھ خواتین، نوجوان لڑکے، لڑکیاں اور کمسن بچے اور بچیاں بھی شامل ہیں۔

اتنی بڑی تعداد میں ہندوؤں کے اسلام قبول کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو میں گاؤں کے کمسن بچے، نماز کے دوران پہنی جانی والی سفید رنگ کی ٹوپیاں پہنے گھومتے نظر آئے۔

مقامی افراد کے مطابق سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سے آئے مذہبی رہنما مولانا احمد حسین پٹھان نے ان تمام افراد کو کلمہ پڑھایا اور ان سب کے اسلامی نام بھی رکھے۔

گوٹھ حبیب الرحمان پسیو کے رہائشی جن کا نام قبولیت اسلام سے پہلے ساون بھیل تھا اور اب ان کا نام محمد اسلم شیخ رکھا گیا ہے نے انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ’مذہب تبدیلی والی یہ تقریب کسی اور نے نہیں منعقد کی تھی بلکہ میں نے اور میرے بڑے بھائی نے اپنی جیب سے 32 ہزار روپے خرچ کرکے اس تقریب کا اہتمام کیا تھا، تاکہ ہم سب مسلمان ہوسکیں اور حیدرآباد سے مولوی کو بھی منگوایا۔ اس کے علاوہ آس پاس کے گاؤں کے وہ افراد جو مسلمان ہونا چاہتے تھے ان کو بھی مدعو کیا۔‘

مذہب تبدیل کرنے والوں میں گوٹھ حبیب الرحمان پسیو کے رہائشی محمد اسلم شیخ، ان کی بیوی، چار بیٹیوں کے ساتھ ان کے بھائی اور بھائی کے خاندان، دو چچا اور تین چچا زاد بھائیوں سمیت پانچ خاندان شامل تھے، جبکہ سات دیگر خاندانوں کا تعلق گولاڑچی تحصیل کے دیگر چھوٹے بڑے گاؤں سے تھا۔

محمد اسلم شیخ کے مطابق ’گذشتہ دو دہائیوں میں ہمارے ایک ہزار سے زائد رشتہ دار مسلمان ہوچکے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں سندھ کے شہروں ٹھٹہ، بدین، کراچی اور بلوچستان کے حب میں موجود ہماری برادری کے لوگوں کے گاؤں کے گاؤں مسلمان ہوئے، وہ افراد جن کو پتہ نہیں ان کے لیے یہ تعجب کی بات ہے، مگر ایسا اکثر ہوتا رہتا ہے اور لوگ اپنی مرضی سے اسلام قبول کرتے ہیں۔‘

’پانچ سال پہلے میری شادی شدہ بہن اور اس کا پورا خاندان بھی مسلمان ہوگیا تھا۔ میرے بہن کے چار بیٹے تھے مگر کوئی بیٹی نہیں تھی، تو میں نے اپنی ایک بیٹی اپنی بہن کو گود دی تھی، جو مسلمان ہوگئی تھی۔ میری چار بیٹیاں ہیں مگر اکثر رشتہ داروں کے مسلمان ہونے کے باعث بیٹیوں کے بیانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہی حال میرے بھائی اور چچا زاد بھائیوں کا ہے اور پچھلے مذہب میں خون کے رشتوں میں بیٹے یا بیٹیوں کی شادی کر نہیں سکتے اس لیے مذہب تبدیل کیا۔ اب میں آسانی سے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کروا سکوں گا۔ میرے کچھ اور رشتہ دار اگلے مہینے مسلمان ہوجائیں گے۔‘

بدین میں نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے صحافی محمد حنیف زئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماضی میں بھیل برادری کا ایک فرد مسلمان ہوا جس کا اسلامی نام دین محمد شیخ رکھا گیا تھا انھوں نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے اپنی پرانی برادری کے کئی خاندانوں کو اسلام قبول کروانے میں مدد کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت پاکستان کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی 55 لاکھ ہے جبکہ پاکستانی ہندؤں کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ملک میں 80 لاکھ ہندو آباد ہیں۔

پاکستانی ہندوؤں کی اکثریت سندھ میں آباد ہے اور سندھ میں بھی اکثریت زیریں سندھ کے اضلاع میرپورخاص اور حیدرآباد میں رہتی ہے۔

تبدیلی مذہب کی اس تازہ خبر کے بعد جب یہ واقعہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر وائرل ہوا تو بھارتی میڈیا میں یہ خبریں چلیں کہ پاکستان کے بدین میں 102 ہندؤں کو زبردستی مذہب تبدیل کروا دیا گیا ہے اور ان کے مندروں اور مندروں میں رکھی مقدس مورتیاں توڑ کر مندروں کو مسجد بنا دیا گیا ہے۔

محمد اسلم شیخ  نے اس حوالے سے کہا کہ ’ایسی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کون ایسا کر رہا ہے۔ آج میں جب جمعہ پڑھ کر باہر آیا تو کچھ میڈیا والے آئے تھے اور سوال پوچھ رہے تھے، میں نے انھیں بھگادیا کیوں کہ وہ جھوٹی خبریں دیتے ہیں۔ ہم اپنی خوشی سے مسلمان ہوئے ہیں اور مسلمان ہونے کے لیے اپنی جیب سے خرچہ کرکے تقریب منعقد کی۔ کسی نے ہمیں زبردستی مذہب تبدیل نہیں کروایا۔‘

زرین سندھ کے ہندؤں کی اکثریت سندھ کے سودیشی ہندؤں کی ذاتیں، جنھیں ہندومت کے نام نہاد ذات پات کے نظام اور حکومت پاکستان کی جانب سے سرکاری طور پر شیڈول کاسٹ یا نچلی ذاتیں کہا جاتا ہے، شامل ہیں۔

محمد اسلم شیخ نے مزید کہا کہ ’بھیل ایک نچلی ذات ہے اور مقامی مسلمان ساتھ کھانا کھانا تو دور کی بات ہاتھ بھی نہیں ملاتے تھے۔ مگر مذہب کی تبدیلی کے بعد اب نہ صرف ساتھ کھانا کھلاتے ہیں ساتھ میں گلے بھی ملتے ہیں۔ ہم سب اب بہت خوش ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان