مائنس ون ٹو کا تھری؟

پاکستانی سیاست کے سب سے پہلے اور بےرحمانہ مائنس کا شکار ذوالفقار علی بھٹو بنے جنہیں پھانسی پر ہی لٹکا دیا گیا، لیکن بقول پارٹی ورکرز آج بھی بھٹو زندہ ہے کا نعرہ ان کی جماعت کو سیاسی زندگی دیتا ہے۔

شیخ رشید جن کے بیان میں کسی خاص وجہ سے ہمیشہ وزن  رہا ہے ،کہتے ہیں کہ اگر مائنس ہوا تو ون نہیں بلکہ تھری ہوگا(تصویر: پی آئی ڈی)

'مائنس' اصطلاح تو ریاضی کی ہے لیکن ہمارے یہاں اس کا اتنا استعمال ریاضی دان نہیں کرتے جتنا سیاستدان کرتے ہیں۔ چند ماہ بعد مائنس مائنس کا زور ایسے اٹھتا ہے جیسے کوئی سدا بہار سیاسی نعرہ۔

نہ جانے کہاں سے اٹھنے والا یہ دھواں نہ جانے کب ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے لیکن اس کے نیچے جلتی چنگاری کب اپنا کام کر جائے اور کون کب مائنس ہوگیا ہے، کسی کو اندازہ نہیں ہوتا۔

پاکستان میں سیاست شخصیات کے نام پر ہی ہوتی رہی ہے اور شاید طویل عرصے تک شخصیات تک ہی تک محدود رہے گی۔ کوئی نئی پارٹی کتنے ہی آئیڈیل منشور کے ساتھ سامنے کیوں نہ آ جائے، اگر کوئی بڑا نام نہیں تو پارٹی بھی بےنامی ہی رہے گی۔

گلیوں کوچوں میں لگے پارٹی بینرز دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس ملک کی سیاست کے لیے شخصیات کتنی اہم ہیں۔ اسی لیے تو کئی نومولود جماعتوں کو توجہ حاصل کرنے کے لیے عسکری سربراہان تک کی تصاویر کا سہارا لینا پڑ جاتا ہے۔

جب سیاست ہی شخصیات پر ہوگی تو سیاسی طاقت کا محور بھی وہی شخصیات رہیں گی اور طاقت کے اس محور کو توڑنا ہی دراصل اس سیاسی جماعت کو توڑنا ہوتا ہے، جس کے لیے مائنس کی اصطلاح متعارف کرائی گئی۔

پاکستانی سیاست کے سب سے پہلے اور بے رحمانہ مائنس کا شکار ذوالفقار علی بھٹو بنے جنہیں پھانسی پر ہی لٹکا دیا گیا، لیکن بقول پارٹی ورکرز آج بھی 'بھٹو زندہ ہے' کا نعرہ ان کی جماعت کو سیاسی زندگی دیتا ہے۔

گذشتہ دو دہائیوں میں مائنس کی اصطلاح کا استعمال زبانی اور عملی دونوں صورتوں میں سامنے آیا۔ پرویز مشرف نے اپنے دور میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہان کو مائنس کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ 2002 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں اپنے سربراہان کے بغیر ہی میدان میں اتریں۔

پیپلز پارٹی کو تو نئے نام یعنی پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرنز کے ساتھ انتخاب لڑنا پڑا۔ اس مائنس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آنے والے ادوار میں یہی جماعتیں برسر اقتدار آئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حالیہ دہائی میں ایک ایسا سیاسی مائنس بھی ہوا جس کا چند سال قبل تک تصور ہی مشکل تھا۔ یہ تھا ایم کیو ایم مائنس الطاف حسین۔ اس مائنس کے ذمے دار الطاف حسین خود ہی ٹھہرے جنہوں نے پاکستان مخالف تقاریر سے اپنی جماعت کو اس نہج پر لاکھڑا کیا کہ پارٹی نے نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں مائنس کر دیا۔ اس مائنس نے ایم کیو ایم کی سیاسی طاقت کو بھی مائنس کر کے رکھ دیا اور یوں پارٹی اور سیاسی طاقت دونوں تقسیم ہوگئے۔

حالیہ سیاست کا ایک اور بڑا مائنس نواز شریف تھے، جو عدالتی فیصلے کے تحت نااہل قرار پا کر مائنس ہوئے اور لمحوں میں وزرات عظمیٰ سے وہاں پہنچ گئے جہاں بالآخر کوئی پارٹی عہدہ بھی نہ رہا۔ لیکن ان کی سیاست مائنس نہ ہوسکی۔ ان کی جماعت نے گذشتہ انتخابات میں نہ صرف خود اپنی توقعات سے بڑھ کر نشستیں جیتیں بلکہ مسلم لیگ ن شکست کھانے والی وہ پہلی جماعت بنی جس نے سوا کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کیے۔

اب عمران خان کے مائنس کی خبریں اچانک سامنے آنے لگی ہیں جن پر ان کے کئی جذباتی پارٹی ساتھی خاصا سیخ پا بھی ہیں، لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مائنس ون کوئی اپوزیشن جماعت نہیں کرسکتی۔ شیخ رشید جن کے بیان میں کسی خاص وجہ سے ہمیشہ وزن رہا ہے، کہتے ہیں کہ اگر مائنس ہوا تو ون نہیں بلکہ تھری ہوگا۔ ان کی مراد شاید پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کی جانب تھی۔ لیکن اگر وہ بھی مائنس کی وضاحت پر مجبور ہوئے ہیں تو شاید دال میں کچھ کالا ہو۔

جب یہ مائنس ہوتا ہے تو اس کا ایسا جواز بھی بنا دیا جاتا ہے کہ اسی پارٹی کو اس مائنس کی وضاحتیں دینا پڑ جاتی ہیں لیکن سیاسی طور پر اگر کسی کو کوئی مائنس کرسکتا ہے تو وہ ہیں عوام اور اگر لیڈر عوام کے دلوں میں ہو تو وہ مائنس ہو کر بھی پلس ہی رہے گا ورنہ عوام ووٹ کی طاقت سے صرف لیڈر نہیں بلکہ پوری جماعت کو مائنس کر دیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ