’غیرت کے نام پر قتل کے بعد لڑکا، لڑکی بغیر جنازے کے دفن‘

پشاور کے علاقے دیر کالونی میں گذشتہ ہفتے پیش آنے والے واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق لڑکی کو ان کے والد جبکہ لڑکے کو چچا نے دیگر رشتہ داروں کی ایما پر اپنے ہی گھر میں قتل کیا۔

پولیس کے مطابق ملزمان کے ساتھیوں کی جانب سے لاشوں کی منتقلی کے خدشے کے پیش نظر قبروں پر پولیس گارڈ کو بھی تعینات کیا گیا ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

پشاور کے علاقے دیر کالونی میں گذشتہ ہفتے مبینہ طور پر غیرت کے نام پر نوجوان لڑکی اور لڑکے کو قتل کے بعد میں رات کی تاریکی میں بغیر جنازے کے دفنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے تاکہ جرم کو چھپایا جا سکے۔

پولیس کے مطابق تین ملزمان میں سے دو کو گرفتار کر لیا گیا ہے جو مقتولین کے رشتہ دار ہیں جبکہ ایک ملزم روپوش ہے۔

سپرنڈنڈنٹ آف پولیس (ایس پی ) سٹی وقار کھرل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دونوں گرفتار ملزمان نے دوران تفتیش اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے جبکہ ایک ملزم روپوش ہے، جسے جلد ہی گرفتار کرلیا جائے گا۔

وقار کھرل نے بتایا کہ ’لڑکی اور لڑکے کو شادی کیے بغیر تعلقات رکھنے کی بنا پر قتل کیا گیا ہے۔‘

یہ واقعہ دو جولائی کو پیش آیا تھا۔ واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق 17 سالہ لڑکی اور 20 ، 21  سالہ لڑکے کو ان کے رشتہ داروں نے ’غیرت کے نام‘ پر قتل کر کے بغیر جنازہ پڑھائے پشاور کے رحمان بابا قبرستان میں دفنا دیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق لڑکی کو ان کے والد جبکہ لڑکے کو چچا نے دیگر رشتہ داروں کی ایما پر اپنے ہی گھر میں قتل کیا۔

پولیس کی جانب سے درج کیے گئے مقدمے میں تحریر ہے کہ مقتولین کے رشتہ داروں نے جرم چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی تاہم پولیس نے قبروں کی نشاندہی کرکے تفتیش شروع کر دی۔

پولیس کے مطابق ملزمان کے ساتھیوں کی جانب سے لاشوں کی منتقلی کے خدشے کے پیش نظر قبروں پر پولیس گارڈ کو بھی تعینات کیا گیا ہے جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے لیے پولیس نے قبر کشائی کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔

پاکستان میں ’غیرت کے نام‘ پر ہر سال درجنوں کیس سامنے آتے ہیں اور اس جرم میں زیادہ لڑکی یا لڑکے کے رشتہ دار ملوث ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسطاً ایک ہزار لڑکیاں ’غیرت‘ کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔

اسی رپورٹ کے مطابق سال 2017 میں خیبر پختونخوا میں 94 لڑکیاں ’غیرت‘ کے نام پر قتل کی گئی تھیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ کیسز وہ ہیں جو پولیس یا میڈیا میں رپورٹ کیے جاتے ہیں جبکہ ایسے بہت سے کیس ہوں گے جو رپورٹ نہیں ہوتے کیونکہ ایسے جرم میں ملزمان جرم چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

انسانی حقوق کے حوالے سے رپورٹنگ کرنے والے صحافی عبدالرؤف یوسفزئی کے مطابق اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نام نہاد غیرت کے نام پر جو کیسز رپورٹ ہوتے ہیں وہ اصل کیسز سے بہت کم ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارے معاشرے میں شادی سے پہلے کسی غیر مرد سے تعلقات کو بالکل برداشت نہیں کیا جاتا اور اگر کوئی لڑکا یا لڑکی ایسا کرے تو دونوں خاندان والے زیادہ تر کیسز میں اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ لڑکی کو اپنے گھر والے جبکہ لڑکے کو اپنے خاندان والے قتل کریں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے لیے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ قتل کے بعد زیادہ تر کیسز میں راضی نامے کے بعد بات ختم کردی جاتی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان