بھارت اور چین کی سرحدی کشیدگی کا فائدہ امریکہ کو؟

اگرچہ صدر ٹرمپ نے چین اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاہم انہوں نے دونوں ممالک کے مابین ثالثی کی پیش کش ضرور کی ہے۔

امریکی خارجہ مائیک پومپیو  نے کہا کہ  چین نے 15 جون کو  وادی گلوان میں سرحدی تناؤ کے دوران ’ناقابل یقین حد تک جارحانہ‘  کارروائی کا مظاہرہ کیا، جس میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

گذشتہ ماہ ہونے والے ایک خونی سرحدی تصادم نے دہائیوں سے قائم بھارت اور چین کے مابین تعلقات کو نچلی ترین سطح پر گرا دیا ہے لیکن اس صورت حال سے نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان دوستی کے رشتے کو واضح فائدہ پہنچا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ حالیہ کشیدگی نے آخر کار بھارت موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ کھلے عام امریکہ کے ساتھ اتحاد کا اعلان کر سکتا ہے، جس کا واشگٹن کو بھی بے صبری سے انتظار تھا۔

امریکی خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ چین نے 15 جون کو وادی گلوان میں سرحدی تناؤ کے دوران ’ناقابل یقین حد تک جارحانہ‘  کارروائی کا مظاہرہ کیا، جس میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

پومپیو نے اس پرتشدد کاروائی کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا کہ چین اپنے تمام ہمسایہ ممالک کو چیلنج کرنے کے لیے ایک وسیع تر حکمت عملی پر کام کر رہا ہے۔

بھارت چین دشمنی پر کتاب تحریر کرنے والے ’کنزرویٹو ہیریٹج فاؤنڈیشن‘ کے ریسرچ فیلو جیف ایم سمتھ کا ماننا ہے کہ امریکہ بھارت کو سرحدی انٹلی جنس کی پیش کش کرتا رہا ہے لیکن اب دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون میں تیزی لائے جانے کا امکان ہے۔

تاہم سمتھ نے کہا کہ بھارت امریکہ کے ساتھ اس تعاون کو عوامی سطح پر منظر عام پر نہیں لانا چاہتا کیوں کہ نئی دہلی میں قائم مودی حکومت اپنے عوام پر یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ اس کو کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ 

سمتھ نے کہا: ’بھارت چین کے اس پروپیگنڈے پر مبنی بیانیے کو بھی بڑھاوا نہیں دینا چاہتا کہ یہ سب کچھ چین اور امریکہ کی دشمنی کا نتیجہ ہے اور بھارت امریکہ کے کہنے پر یہ سب کچھ کر رہا ہے۔‘

’ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر برائے سکالرز‘میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کجل مین نے خبردار کیا ہے کہ نہ تو بھارت اور نہ ہی چین باہمی تعلقات کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں کیوں کہ دونوں ممالک کے ابھی بھی کچھ مشترکہ مفادات ہیں جو بالخصوص بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر نظر آتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’لیکن (امریکہ کو) کوئی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ بھارت اور چین کے درمیان یہ موجودہ بحران ایشیا کی جغرافیائی سیاست کے لیے اہم موڑ ہے اور یہ صورت حال امریکہ اور بھارت کے تعلقات کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سے بھارت کی اس تشویش کا بھی خاتمہ ہو جائے گا کہ امریکہ کے قریب آنے سے چین اس کا دشمن بن سکتا ہے۔‘

امریکہ 1990 کی دہائی سے ہی بھارت کے ساتھ بہترین روابط کا خواہاں رہا ہے جس نے سرد جنگ کے دوران عالمی سطح پر خود کو ’غیر وابستہ‘ رکھنے کو ترجیح دی تھی۔

لیکن بھارت میں ہندو قوم پرست نریندر مودی کی حکومت قائم ہونے کے بعد حالات یکسر بدلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مودی کی طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی قوم پرست رہنما ہیں اور دونوں مشترکہ ریلیوں کے دوران بنیاد پرست اسلام کے خطرے کی بات کرتے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہڈسن انسٹی ٹیوٹ‘ کی ڈائریکٹر اپرنا پانڈے نے اس حوالے سے کہتی ہیں کہ بھارت چین اور پاکستان کے بارے میں صدر ٹرمپ کے سخت موقف سے خوش ہے لیکن اسے ٹرمپ انتظامیہ کی تجارتی اور ویزا پالیسیوں پر پریشانی بھی ہے۔

انہوں نے کہا: ’یہ ایک لین دین کا ادھورا رشتہ ہے۔  بھارت اور امریکہ کے درمیان اب کوئی سٹریٹجک تعلق نہیں ہے جیسا کہ پہلے سالوں میں تھا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ٹرمپ شاید بھارت کے ساتھ زیادہ پرعزم تعلقات کے خواہاں بھی نہ ہوں۔‘

ایک اور حالیہ تبدیلی میں امریکی اراکین پارلیمنٹ، جن میں زیادہ تر ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے، نے کشمیر میں مودی حکومت کے حالیہ اقدامات سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کھلے عام تنقید کی ہے۔

صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے قریبی ساتھی انتھونی بلنکن نے کہا کہ اگر ڈیموکریٹ صدارتی انتخابات جیتی ہے تو وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو مضبوط اور گہرا کرنے کی کوشش کرے گی تاہم انہوں نے بھارت میں آزادیوں پر قدغن کے حوالے سے خدشات کا اظہار بھی کیا۔

بلنکن نے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں کہا: ’آپ ہمیشہ ایک دوست کے ساتھ اس وقت بہتر طور پر کام کرتے ہیں جب بھارت جیسے ایک اہم ملک سے آپ واضح طور پر اور براہ راست ان معزملات کے بارے میں بات کرسکتے ہیں جہاں آپ کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔‘

اگرچہ صدر ٹرمپ نے چین اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاہم انہوں نے دونوں ممالک کے مابین ثالثی کی پیش کش ضرور کی ہے۔

لیکن ٹرمپ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن، جنہوں نے حال ہی میں ایک دھماکہ خیز کتاب شائع کی، کو شبہ ہے کہ ٹرمپ سرحدی صورت حال کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔

بولٹن نے بھارتی نیوز چینل ڈبلیو آئی او این کو بتایا: ’شاید انہیں اس کے بارے میں بریف کیا گیا ہو لیکن وہ تاریخ سے نابلد ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا