کشمیر: پابندیاں دوبارہ نافذ کرنے کےلیے 13 جولائی کو کیوں چنا گیا؟

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 1948 کے بعد پہلی بار ہوا ہے جب یہاں 13 جولائی 1931 کے 'شہدائے کشمیر' کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر کوئی تقریب منعقد نہیں ہوئی۔

قتل ہونے والے لوگوں کو زیارت گاہ خواجہ نقشبند صاحب مشکل کشا کے صحن میں سپرد خاک کیا گیا تھا اور تب سے یہ مقبرہ 'مزار شہدا' کہلاتا ہے (ظہور حسین)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 1948 کے بعد پہلی بار ہوا ہے جب یہاں مزار شہدا پر 13 جولائی، 1931 کے 'شہدائے کشمیر' کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر کوئی تقریب منعقد نہیں ہوئی۔

سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر 'یوم شہدا' کی تقاریب کا انعقاد نہ ہونے کی دو الگ الگ وجوہات ہیں۔ جہاں حکومت نے اپنی سالانہ تقریب کو امسال سے نہ منانے کا سرکاری طور پر اعلان کیا ہے وہیں غیر سرکاری سطح پر منعقد کی جانے والی تقاریب انتظامیہ کی جانب سے دارالحکومت سری نگر سمیت کشمیر کے مختلف علاقوں میں پیر کو عائد کی گئی سخت پابندیوں کی وجہ سے منعقد نہیں ہوسکیں۔

کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے ایک ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پارٹی کو 'مزار شہدا' پر حاضری دینے کی اجازت نہیں ملی جس کے بعد پارٹی ہیڈکوارٹرز نوائے صبح کمپلیکس سری نگر میں منعقد کی جانے والی ایک چھوٹی تقریب میں 'شہدائے کشمیر' کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

بقول ان کے: 'ہم نے انتظامیہ سے وہاں شہدا کی قبروں پر حاضری دینے کی اجازت مانگی تھی جو نہیں ملی، مزار شہدا کو سیل کیا گیا تھا۔ ہمارے  بعض رہنماؤں نے پارٹی ہیڈکوارٹرز آکر شہدائے کشمیر کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ پڑھی اور تقریریں کر کے ان کی خدمات کو یاد کیا۔'

پارٹی ہیڈکوارٹر میں نیشنل کانفرنس کے بانی اور کشمیر کے سابق وزیر اعظم مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے بیٹے ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے نامہ نگاروں کو بتایا: 'ہمارے صدر محترم (ڈاکٹر فاروق عبداللہ) کی ہدایت پر پارٹی ہیڈکوارٹر نے حکام سے رابطہ  کیا اور مزار شہدا پر فاتحہ پڑھنے کی اجازت مانگی لیکن حکام کی طرف سے ہاں ہوئی نہ نہیں۔'

انہوں نے، جو نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سکریٹری بھی ہیں، کہا کہ کشمیری عوام بھارتی حکومت سے ناراض نہیں بلکہ اس سے نفرت کرتی ہیں نیز یہاں کے نوجوان مرنے کے لیے تیار ہیں۔

نامہ نگاروں نے جب ڈاکٹر مصطفیٰ کمال سے بھارت کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری رام مادھو کے اس بیان کہ 'کشمیر کی علاقائی سیاسی جماعتیں سیاسی سرگرمیاں بحال کرنے سے دور بھاگ رہی ہیں' کے متعلق پوچھا تو ان کا جواب تھا: 'ہمارے چھوٹے بڑے لیڈر تھانوں یا گھروں میں بند ہیں، مادھو جی اپنے گریبان میں جھانکیں اور لوگوں کی سنیں۔لوگوں میں ناراضگی نہیں بلکہ نفرت ہے،  ہمارے نوجوان مرنے کے لیے تیار ہیں۔ مرتے بھی ہیں۔ آپ ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں۔ آپ یہاں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں آپ سرعت سے لگے ہوئے ہیں۔ آپ مسلمانوں کے لیے دقتیں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔'

کشمیر کے مختلف حصوں بالخصوص سری نگر میں پیر کی صبح ہی لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں اور 'مزار شہدا' کی طرف جانے والی سڑکیں اور اس کے باب الداخلے کو خاردار تار اور دیگررکاوٹوں سے سیل کیا گیا تھا۔

کشمیر انتظامیہ کے مطابق پابندیاں لوگوں کو 'مزار شہدا' پر حاضری دینے سے روکنے کے لیے نہیں بلکہ کرونا کیسز میں نمایاں اضافے کے پیش نظر عائد کی گئی ہیں ۔تاہم لوگوں کا سوال ہے کہ پابندیاں دوبارہ نافذ کرنے کے لیے 13 جولائی کو ہی کیوں چنا گیا۔

واضح رہے کہ بی جے پی حکومت نے گذشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد اس کے لیے سال 2020 کی تعطیلات کا کلینڈر جاری کیا جس میں 13 جولائی (یوم شہدائے کشمیر) اور پانچ دسمبر (شیخ محمد عبداللہ کی سالگرہ) کی تعطیلات منسوخ کی گئیں۔

13 جولائی اور پانچ دسمبر کی بجائے 26 اکتوبر کو تعطیل رکھی گئی ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 1947 میں اُس وقت کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کا مبینہ طور پر بھارت سے مشروط الحاق کیا تھا۔

13 جولائی، 1931 کو سری نگر کی سینٹرل جیل کے احاطے میں ایک مقدمے کی سرعام سماعت کے دوران اُس وقت کی ڈوگرہ پولیس نے نہتے کشمیریوں پر اندھا دھند گولیاں برسائی تھیں جس کے نتیجے میں کم از کم 22 کشمیری مارے گئے تھے۔

مہاراجہ ہری سنگھ کے بھارت سے مشروط الحاق کے بعد جب شیخ محمد عبداللہ کو کشمیر کا وزیر اعظم بنایا گیا تھا تو انہوں نے ان 'شہدا' کی قربانی کو یاد رکھنے کے لیے'13 جولائی' کو ہر سال سرکاری سطح پر 'یوم شہدائے کشمیر' کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔

تب سے ہر سال سری نگر کے نقشبند صاحب علاقے میں واقع 'مزار شہدا' پر سرکاری سطح پر ایک تقریب منعقد ہوتی تھی جس میں کشمیر کے وزیر اعلیٰ یا گورنر شرکت کر کے 'شہدائے کشمیر' کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے جب کشمیر کے نامور مورخ و مصنف محمد یوسف ٹینگ سے پوچھا کہ 13 جولائی کا دن کشمیریوں کےلیے کیوں اہم  ہے تو ان کا کہنا تھا: 'اسی دن سے کشمیر کی تحریک آزادی شروع ہوئی ہے۔ اس دن سے پہلے کشمیر میں 'اجتماعی شہادتوں' کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔  یہ 13 جولائی ہی تھا جب کشمیریوں کی اپنے حقوق کے حصول کے لیے باضابطہ جدوجہد شروع ہوئی اور یہ عوامی تحریک کا روپ اختیار کر گئی۔'

کشمیر میں 13 جولائی کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ یہ دن منانے پر حکومت، علاقائی ہند نواز جماعتوں اور علیحدگی پسند تنظیموں میں اتفاق رائے تھا۔ جہاں حکومتی سربراہان اور ہند نواز علاقائی جماعتوں کے رہنما 'مزار شہدا' پر آکر قبروں پرپھول پھینکتے تھے وہیں علیحدگی پسند رہنماؤں کو اپنے گھروں یا پولیس تھانوں میں بند اور شہر کی ناکہ بندی کر کے ان کی طرف سے دی جانے والی 'مزار شہدا چلو' اپیل ناکام بنا دی جاتی تھی۔

کشمیر کے ہندو اکثریتی صوبے جموں میں کچھ جماعتیں بالخصوص بی جے پی، وی ایچ پی اور بجرنگ دل 13 جولائی کو 'یوم شہدا' کے طور پر منانے کے خلاف تھیں اور اکثر اس موقعے پر احتجاج کرتی تھیں۔

بی جے پی کشمیر یونٹ کے جنرل سیکریٹری (آرگنائزیشنز) اشوک کول نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ' ہمارا شروع سے ہی موقف رہا ہے کہ ہم اس 'یوم شہدا' کو نہیں مانتے۔اُس وقت ملک بھر میں بھارت چھوڑو آندولن چل رہا تھا اور یہاں ایک الگ قسم کا آندولن شروع کیا گیا تھا جس کا بھارت چھوڑو آندولن سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس کو مانتے ہی نہیں۔'

ایک سرکاری افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: '13 جولائی کو نہ صرف 'مزار شہدا' میں سرکاری طور پر ایک تقریب منعقد ہوتی تھی بلکہ ریاست کے سربراہ، چاہے وہ وزیر اعلیٰ ہو یا گورنر، کی طرف سے اخباری بیان جاری ہوتا تھا اور محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ اشتہار جاری کرتا تھا، جن میں 'شہدا' کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا تھا، لیکن چونکہ 13 جولائی کو تعطیلات کی فہرست سے نکالا گیا ہے اور یہاں کے انتظامی ڈھانچے میں نمایاں تبدیلیاں لائی گئی ہیں اس لیے امسال سے کوئی سرکاری تقریب منعقد ہوگی نہ کوئی بیان جاری ہوگا۔'

کشمیر کی ہند نواز سیاسی جماعتوں اور علیحدگی پسند تنظیموں نے 'شہدائے کشمیر' کو خراج عقیدت پیش کرنے کی اپنی روایت برقرار رکھی ہے۔ اگرچہ ہند نواز جماعتوں کے رہنما پابندیوں کی وجہ سے 'مزار شہدا' پر نہیں آسکے تاہم انہوں نے اس دن کی مناسب سے بیانات جاری کیے ہیں۔

میرواعظ مولوی عمر فاروق کی قیادت والے حریت کانفرنس کے دھڑے نےایک بیان میں 13 جولائی، 1931 کے دن کو جموں و کشمیر کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل قرار دیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس دن اظہار رائے کی آزادی کو طاقت کے بل پر خاموش کرنے کے لیے سینٹرل جیل کے باہر 22 کشمیریوں کو بے دردی سے شہید کردیا گیا اور اس کے بعد سے آج تک بلا امتیاز کشمیری عوام اس دن کو 'یوم شہدائے کشمیر' کے طور پر مناتے آئے ہیں۔

'یہ قربانیاں جموں و کشمیر کی عوام کا ایک قابل فخر ورثہ ہیں جو اُس وقت سے سے لے کر آج تک اپنے نصب العین کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے قربانیاں دیتے آئے ہیں۔'

بیان میں کہا گیا کہ مسئلہ کشمیر کا پُرامن حل وقت اور حالات کا ناگزیر تقاضا ہے جس کے لیے بھارت اور پاکستان کو مل بیٹھ کر ایک ایسا حل تلاش کرنا ہے جو جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی اور امنگوں کے مطابق ہو اور اس ضمن میں حریت قیادت اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔

حریت کانفرنس کے میرواعظ دھڑے کے بیان میں مزید کہا گیا کہ موجودہ کرونا کی وبائی بیماری اور حریت چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق کی مسلسل خانہ نظر بندی کے سبب امسال 13 جولائی کے تعلق سے عوامی جلسہ جلوس اور خراج عقیدت کے اجتماعی پروگرام کو ملتوی کیا گیا ہے۔

تاہم بیان میں حریت کانفرنس نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ حسب روایت 13 جولائی، 1931 کے 'شہدا' کی یاد میں ہڑتال کرکے عقیدت و محبت کا اظہار کریں۔

کشمیر میں استصواب رائے کرانے کا مطالبہ کرنے والی کئی ایک تنظیموں کی طرف سے پریس ریلیز جاری کرنے کا سلسلہ گذشتہ برس کے پانچ اگست سے بند ہے۔ اس لیےان کی طرف سے 'یوم شہدا' پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

تاہم کشمیر کی تقریباً تمام علاقائی ہند نواز جماعتوں بشمول نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، جموں و کشمیر اپنی پارٹی کی طرف سے اس دن کے موقعے پر بیانات جاری ہوئے ہیں۔

نیشنل کانفرنس کے صدر و سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے 13 جولائی  کے 'شہدا' کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا  کہ آزادی سے قبل شخصی راج کے خلاف جدجہد میں عوام نے بے پناہ ہمت اور جواں مردی کا مظاہرہ کیا تھا اور یہ قربانیاں اُسی جذبے کی علامت ہیں۔

'یہ شہادتیں تاریخی حریت کشمیر کا ایک عظیم ورثہ ہیں۔ اُن کے خون کا ایک ایک قطرہ ہماری خودداری، آزادی اور آبرو کا ضامن ہے۔ یہ خون ہم پر ایک قرض ہے۔ شہیدوں نے ہماری راہوں کو آسان بنادیا تھا اور ہماری تنظیم نیشنل کانفرنس ان ہی قربانیوں کی پیداوار ہے۔

'آج جب ہماری قوم کے سامنے ڈھیر وں مسائل نئی شکل وصورت میں ظاہر ہوگئے ہیں۔ ہمیں ان مسائل سے نپٹنے میں انتہائی سوجھ بوجھ، عزم و استقلال اور جواں مردی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔'

'یوم شہدائے کشمیر' کیوں منایا جاتا ہے؟

مورخین کے مطابق 16 مارچ 1846 کو مہاراجہ گلاب سنگھ اور انگریزوں کے درمیان معاہدہ امرتسر طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت انگریزوں نے 75 لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض کشمیر کو مہاراجہ گلاب سنگھ کے حوالے کردیا۔ معاہدہ طے ہونے کے بعد ڈوگرہ حکمرانوں نے 1947 تک یعنی ٰایک صدی تک کشمیر پر حکومت کی۔

ڈوگرہ حکمرانوں کا رویہ کشمیر کی اکثریتی عوام یعنیٰ مسلمانوں کے تئیں بالکل جانبدارانہ تھا۔ اکثریتی عوام غلامی، محکومی اور فقیری کا شکار تھی۔

ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیر کو خریدنے کے ساتھ ہی کھیتوں کو جاگیرداروں کے حوالے کردیا تھا۔ ان کھیتوں پر اگرچہ کشمیری کاشت کار فصلیں اگاتے تھے لیکن جب فصل تیار ہوتی تھی تو جاگیردار آکر 90 فیصد اناج لے کر چلے جاتے تھے۔ اس طرح جاگیردار غریب کاشت کاروں کا خون چوستے تھے۔

اس کے علاوہ طرح طرح کے ٹیکس لگائے گئے تھے جن کی وجہ سے شالباف اور دیگر کاریگروں کا جینا دو بھر کردیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے لیے سرکاری نوکریوں کے دروازے تقریباً بند تھے۔

ڈوگرہ حکمرانوں اور جاگیرداروں کا خوف اس قدر حاوی ہوچکا تھا کہ کوئی اُف تک نہیں کرتا تھا۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی حاکم اور جاگیرداروں کے خلاف کچھ کہے۔

اگرچہ شالبافوں اور دوسرے کاریگروں نے ڈوگرہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بغاوت کی علم بلند کرنے کی کوشش کی تھی تاہم خوف ودہشت سے اُن کی آواز کو دبایا گیا ۔

اس دوران شیخ محمد عبداللہ 1930 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے کشمیر واپس لوٹے۔ انہوں نے علی گڑھ میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی تھی۔  اُس وقت جموں وکشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کی شخصی اور مطلق العنان حکومت کا دور تھا۔ شیخ محمد عبداللہ اور دوسرے پڑھے لکھے نوجوانوں نے ڈوگرہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ایک منظم تحریک شروع کرنے کے ارادے سے اپریل 1930 میں فتح کدل سری نگر میں مفتی ضیا الدین کے گھر میں ریڈنگ روم پارٹی کی بنیاد ڈال دی۔

ریڈنگ روم پارٹی نے جامع مسجد، خانقاہ معلی اور گاؤ کدل وغیرہ میں تقاریر کا سلسلہ شروع کیا جس سے مطلق العنان حکومت کے ایوانوں میں زبردست تہلکہ مچا۔ اُس وقت کے سرکردہ مذہبی سکالروں اور ریڈنگ روم پارٹی نے فیصلہ کیا کہ کشمیر کی اکثریتی عوام پر روا رکھی جارہی نا انصافیوں کو لے کر مہاراجہ کو ایک میمورنڈم پیش کیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میمورنڈم پیش کرنے والے نمائندوں کا باضابطہ انتخاب عمل میں آیا۔ اُن نمائندوں میں میرواعظ مولانا محمد یوسف شاہ، مولوی احمد اللہ ہمدانی، شیخ محمد عبداللہ، خواجہ سعد الدین شال، خواجہ غلام احمد عشائی، آغا سید حسین شاہ جلالی، چوہدری غلام عباس وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔

میمورنڈم کو پیش کرنے کے حوالے سے لوگوں کو مطلع کرنے کے لیے 21 جون، 1931 کو خانقاہ معلی کے صحن میں ایک جلسہ کا انعقاد کیا گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ جلسے کے اختتام پر جب شرکااپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہونے ہی والے تھے کہ عین موقعے پر ایک غیر کشمیری نوجوان اٹھ کھڑا ہوا اور نعرے لگانا شروع کردیے۔

لوگ اپنی جگہوں پر دوبارہ بیٹھ گئے۔ اُس نوجوان نے اپنی تقریر میں کہا کہ بے شک مہاراجہ کی فوج کے پاس بندوقیں اور توپیں ہیں اور تم نہتے ہو۔ مگر تم پتھر اور لاٹھیوں کا استعمال کر کے مہاراجہ کی فوج کا مقابلہ کرسکتے ہو۔ اُس نوجوان نے یہ بھی کہا کہ میمورنڈم پیش کرنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا اور اپنی تقریر کے اختتام پر مہاراجہ پیلس کی طرف انگلی لہراتے ہوئے کہا کہ اس محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔

لوگ ایک دوسرے سے اُس نوجوان کے بارے میں دریافت کرنے لگے مگر وہ ہر ایک کے لیےاجنبی تھا۔ بعد میں لوگوں کو معلوم ہوا کہ مذکورہ نوجوان کا نام عبدالقدیر خان ہے اور وہ ایک یورپی خاتون کے ساتھ بحیثیت گائیڈ کشمیر آیا ہوا ہے۔

تاہم آج تک یہ واضح نہ ہوا  کہ عبدالقدیر اصل میں رہنے والے کہاں کے تھے۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ اُن کا تعلق رائے بریلی اترپردیش سے تھا۔ بعض کا کہنا ہے کہ وہ افغانی تھے اور بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ کشمیری تھے۔

محمد یوسف ٹینگ کے مطابق عبدالقدیر خان بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر امروہہ کے رہنے والے تھے۔ 'چونکہ وہ ایک انگریز کے ساتھ آئے ہوئے تھے اس لیے ان کو کچھ دنوں تک سینٹرل جیل میں بند رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا۔ وہ جہلم ویلی روڈ سے پہلے لاہور اور پھر وہاں سے امروہہ پہنچے۔ وہ امروہہ میں ہی مدفون ہیں۔'

دوسرے دن لوگوں کو معلوم ہوا کہ عبدالقدیر خان کو پولیس نے گرفتار کر کے سینٹرل جیل منتقل کیا ہے۔ اُن کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ 13 جولائی، 1931 کو عبدالقدیر کے مقدمے کی کارروائی سری نگر کے سینٹرل جیل میں شروع ہونے والی تھی ۔

ہزاروں کی تعداد میں لوگ مقدمے کی کارروائی سننے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ لوگوں نے مطالبہ کیا کہ عدالت مقدمے کی کارروائی چار دیواریوں کی بجائے جیل کے صحن میں شروع کرے۔

جب سیشن جج سینٹرل جیل پہنچے تو وہاں پہلے سے جمع لوگوں نے اُن کی گاڑی کو روکا اور اُن سے درخواست کی کہ عبدالقدیر کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ موصوف جج اشتعال میں آگئے اور پولیس کو بلا لیا۔ پولیس نے آتے ہی وہاں موجود لوگوں پر اندھا دھند گولیاں برسائیں جس کے نتیجے میں 22 کشمیری موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔

تاہم محمد یوسف ٹینگ کے مطابق ڈوگرہ پولیس کی طرف سے فائرنگ نماز ظہر کے وقت کی گئی اور گولیوں کا نشانہ بننے والے وہ لوگ تھے جو نماز ظہر کی اذان دینے کے لیے آگے آئے۔

'نماز ظہر کا وقت آیا تو ایک کشمیری اذان دینے کے لیے آگے آیا لیکن ڈوگرہ پولیس نے اس پر گولی چلائی۔ پھر اذان مکمل کرنے کےلیے دوسرا آگے آیا لیکن اس پر بھی گولی چلائی گئی۔ اس طرح اذان مکمل کرنے کے لیے جتنے لوگ بھی آگے آئے ان کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا'۔

ٹینگ نے بتایا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے چیف منسٹر جی اے ویک فیلڈ نے لکھا ہے کہ' جب میں جائے واردات پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ہر ایک ہلاک یا زخمی شخص کے سینے میں گولی لگی تھی۔  اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ گولیاں اذان دینے کے دوران سامنے سے چلائی گئیں۔'

مارے گئے لوگوں کو زیارت گاہ خواجہ نقشبند صاحب مشکل کشا کے صحن میں سپرد خاک کیا گیا تھا اور تب سے وہ مقبرہ 'مزار شہدا' کہلاتا ہے۔ ڈوگرہ پولیس کی اس کارروائی کے خلاف کئی مہینوں تک کشمیر میں مظاہرے جاری رہے۔

اس واقعے کے بعد ڈوگرہ مطلق العنان یا شخصی حکومت کے خلاف ایک منظم تحریک شروع ہوئی اور لوگ بغیر کسی ڈر و خوف کے احتجاجی پروگراموں میں شامل ہونے لگے۔ 1947 میں ڈوگرہ حکومت کے خاتمے کے بعد 13 جولائی کی اہمیت بڑھ گئی اور اس دن کو سرکاری طور پر 'یوم شہدائے کشمیر' کے طور پر منایا جانے لگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا