ایسی خاتون جنہیں درد نہیں ہوتا

سکاٹ لینڈ کی ایک معمر خاتون جنہیں کوئی درد محسوس نہیں ہوتا، زخم بھرنے کی غیر معمولی طاقت رکھتی ہیں اور خطر ناک حالات میں گھبراتی نہیں

تصویر: جو کیمرون

سکاٹ لینڈ کی ایک معمر خاتون جنہیں کوئی درد محسوس نہیں ہوتا، زخم بھرنے کی غیر معمولی طاقت رکھتی ہیں اور خطر ناک حالات میں گھبراتی نہیں۔ سننے میں تو یہ ہالی وڈ کی کسی نئی سوپرہیرو فلم کی کہانی لگتی ہے، مگر ایسی خاتون حقیقت میں دنیا میں موجود ہیں۔ 

برطانیہ میں سائنس دانو کو ایسی ہی ایک خاتون مل گئی ہیں، مگر فلموں کی طرح 71 سالہ جو کیمرون کا نہ تو کسی خلائی مخلوق سے تعلق ہے اور نہ ہی وہ کسی نورس دیوتا کی رشتہ دار ہیں، بلکہ ان کی یہ انوکھی طاقت اب تک کے ایک نا معلوم جینیاتی ’میوٹیشن‘ کا نتیجہ ہے جسے سائنس دانوں نے اب دریافت کر لیا ہے۔

برٹش جرنل آف اینیستھیزیا میں شائع ہونے والی جو کیمرون کی کہانی سے مریضوں کی سرجری سے صحتیابی، دائمی درد اور تناؤ کے امراض کے علاج  پر تحقیق میں اہم پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔

جو کیمرون ڈاکٹروں کی نظروں میں کچھ سال پہلے آئیں جب وہ 65 سال کی تھیں۔ وہ کولہے کی ہڈی کے ایک مسئلے کے علاج کے لیے گئیں جس کے بعد ڈاکٹروں کو پتا چلا کہ ہڈی جوڑوں کی سوزش (arthritis) سے نہایت خراب ہوگئی تھی اور اسے تبیدل کرنے کی ضرورت تھی۔

ہڈی کی ایسی حالت عام طور پر مریضوں کے لیے شدید تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن جب جو کیمرون کی ایک اور ایسی سرجری ہوئی جس میں انہیں درد محسوس نہیں ہوا تو ریگمور ہسپتال کے ڈاکڑوں نے فیصلہ کیا کہ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

جریدے میں جو کیمرون کی پوری طبی معلومات کے ساتھ ساتھ محققین نے لکھا: ’انہوں (جو کیمرون)  نے کئی کٹ لگنے اور جلنے سے زخموں کا بتایا جن میں انہیں بلکل درد نہیں ہوا۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ انہیں زخم دیکھنے یا محسوس ہونے سے پہلے ہی اپنی جلد کے جلنے کی بدبو آگئی۔ مگر یہ زخم جلد ہی بھر گئے اور کوئی نشان بھی باقی نہ رہا۔‘

محققین نے مزید لکھا کہ ٹیسٹوں میں جو کیمرون سکاچ بونٹ مرچیں، جو بہت تیز ہوتی ہیں، بھی ’بغیر کسی تکلیف کے‘ کھا گئیں بلکہ انہوں نے منہ میں مرچیں کھانے کے بعد ’اچھا محسوس ہونے والا گلو‘ بھی رپورٹ کیا۔

جو کیمرون نے کہا: ’مجھے کچھ سال پہلے تک پتا ہی نہیں تھا کہ یہ جو میں اتنا کم درد محسوس کرتی ہوں یہ کوئی غیر معمولی بات ہے۔ مجھے تو لگتا تھا کہ یہ عام سی بات ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اب اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا مجھے اتنا ہی حیران کرتا ہے جیسے کہ کسی اور کو۔‘

جریدے میں شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق یونیورسٹی کالج لندن اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں جینیات پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے جو کیمرون کے جینز میں دو ایسی میوٹیشنز پائیں جن کا ان کو درد نہ محسوس ہونے سے تعلق ہے۔ ان میں سے ایک جین کا نام ’فیٹی ایسڈ  آمائڈ  ہائڈرولیز‘(فا) ہے۔  

یہ جین انسانی جسم کے اینڈوکینابنایڈ (endocannabinoid) سسٹم میں کردار ادا کرتا ہے۔ یہ سسٹم مرکزی عصبی نظام کا وہ حصہ ہے  جو درد، یادداشت اور رویے کو ٹھیک کرتا ہے اور جس پر کینابیس اثر کرتی ہے۔

سائنس دانوں کو ایک اور جین بھی ملا جسے پہلے ’بیکار ڈی این اے‘ قرار دے دیا گیا تھا جس کا کوئی مقصد نہیں تھا، لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ یہ جین جس کا نام ’فاآوٹ‘ رکھا گیا ہے اصل میں فا جین کو کنٹرول کرتا ہے اور جو کیمرون میں یہ جین فا کو بند کرتا ہے۔

درد محسوس نہ ہونے اور زخم جلدی بھرنے کی علاوہ جو کیمرون کا تناؤ اور ڈپریشن کے ٹیسٹ میں بھی صفر سکور آیا، اور وہ کہتی ہیں کہ خطرناک صورت حال میں وہ بلکل گھبراتی نہیں جیسے حال ہی میں ہونے والے گاڑی کے ایک حادثے میں۔

انہوں نے اگر کوئی کمزوری بتائی تو وہ یہ تھی کہ وہ تھوڑی سی غیر حاضر ہیں اور اکثر اپنی چابیاں یا خیالات کی سمت بھول جاتی ہیں۔

جو کیمرون کی تشخیص کرنے والے ریگمور ہسپتال کے درد کے ماہر ڈاکڑ دیو جیت شری واستو نے کہا: ’اس  دریافت کے اثرات اہم ہوسکتے ہیں۔‘

جدید درد کش ادویات کے باوجود آدھے سے زائد مریض سرجری کے بعد تھوڑے سے لے کر شدید درد کی شکایت کرتے ہیں۔ جہاں دوسرے طریقے ناکامیاب رہے ہیں،  فا آوٹ جین فا جین کے تکلیف کم کرنے کےامکانات کو ابھارنے کے لیے ایک اہم کڑی ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر دیوجیت شری واستو نے کہا: ’یہ کیس تکلیف کو کم کرنے والی دواؤں کے لیے ایک اہم دریافت ثابت ہوسکتا ہے جس سے سرجری کی بعد درد کم کرنے اور زخم جلد بھرنے کے عمل کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔‘

’ہمیں امید ہے کہ اس دریافت سے ہر سال تین کڑور سے زائد سرجری کروانے والے مریضوں کو فائدہ ہوگا۔‘

جو کیمرون نے کہا کہ وہ بے حد خوش ہوں گی اگر ان کے جینز پہ کی گئی تحقیق سے تکلیف میں مبتلا لوگوں کو فائدہ ہوگا۔

محققین نے کہا کہ ایسے اور بھی لوگ ہوسکتے ہیں جو اس میوٹیشن کے ساتھ جی رہے ہوں۔ انہوں نے اپیل کی کہ ایسے لوگ سامنے آئیں اور اس تحقیق کو آگے بڑھانے میں مدد کریں۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین