کرونا غائب ہو جائے گا، ایک لاکھ ہلاکتوں کے باوجود ٹرمپ کا اصرار

'فاکس نیوز' کے ایک پروگرام میں صدر ٹرمپ کو کرونا وائرس کے حوالے سے ان کے وہ بیانات دیکھائے گئے جو بعد میں غلط ثابت ہوئے تاہم صدر کا کہنا تھا: 'میں پھر کہتا ہوں یہ غائب ہو جائے گا اور میرا کہا سچ ہو گا۔'

صدر ٹرمپ کا اصرار ہے کہ کرونا وائرس کے غائب ہونے کے بارے میں ان کا بیان ایک نہ ایک دن درست ثابت ہو گا (اے ایف پی)

امریکی ریاستوں کیلی فورنیا، ٹیکساس، ایریزونا اور فلوریڈا میں کرونا (کورونا) وائرس کے کیسز کی بڑھتی تعداد اور ماہرین صحت کی پیش گوئی کہ اس وائرس کے ساتھ ایک طویل جنگ جاری رہے گی کے باوجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اصرار جاری ہے کہ کرونا وائرس 'غائب' ہو جائے گا۔

اتوار کو نشر ہونے والے پروگرام  'فاکس نیوز سنڈے' میں میزبان صحافی کرس والیس کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران صدر ٹرمپ کو ایسی ویڈیو کلپس دیکھائی گئیں جن میں وائرس کے حوالے سے غلط ثابت ہونے والے ان کے بیانات تھے تو صدر نے جواب دیا:  'میری بات آخر کار سچ ثابت ہو گی۔ میری بات سچ ثابت ہو گی۔ آپ جانتے ہیں میں نے کہا تھا یہ غائب ہو جائے گا۔ میں پھر کہتا ہوں یہ غائب ہو جائے گا اور میرا کہا سچ ہو گا۔'

وہ کووڈ 19 کے بارے میں بات کر رہے تھے جس سے گذشتہ پانچ ماہ کے دوران ایک لاکھ 40 ہزار امریکی ہلاک ہو چکے ہیں۔

امریکہ میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کو کرونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 40 ہزار سے تجاوز کر گئی لیکن صدر ٹرمپ ابھی تک اس بات پر بضد ہیں کہ امریکہ میں ہونے والی ہلاکتوں کی شرح دنیا بھر میں سے سب سے کم ہے جو درست نہیں ہے۔

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق امریکہ میں کرونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی شرح دنیا بھر کی بدترین شرحوں میں ساتویں نمبر پر ہے۔ روس اور برازیل جیسے ملکوں میں بھی ہلاکتوں کی شرح امریکہ سے کم ہے۔ کرس والیس نے انٹرویو کے دوران اس بات کی نشاندہی بھی کی جس کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنے عملے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ 'کیا آپ مجھے شرح اموات فراہم کر سکتے ہیں، پلیز'۔ ان کی جانب سے یہ کوشش کم ترین شرح اموات کے حوالے سے خود کو ٹھیک ثابت کرنے کے لیے گی گئی۔

کرس والیس نے نشاندہی کی کہ وائٹ ہاوس کے وہ دستاویز جو صدر ٹرمپ استعمال کر رہے ہیں وہ دراصل یورپین سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اور انسداد کے اعداد و شمار ہیں۔ اس گراف میں دکھایا گیا ہے کہ امریکہ کی شرح اموات سپین اور اٹلی سے کم ہے لیکن یہ برازیل اور جنوبی کوریا کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ جس سے صدر ٹرمپ کا دعوی غلط ثابت ہوتا ہے۔

حالیہ ہفتوں میں صدر ٹرمپ ایک اور دعوی دہراتے رہے ہیں جس کے مطابق کیسز میں ہونے والا اضافہ ریاستوں کی جانب سے کیے جانے والے زیادہ ٹیسٹوں کا نتیجہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انٹرویو کے دوران جب ٹیسٹنگ کے حوالے سے بات کی گئی تو کرس والیس نے نشاندہی کی کہ زیادہ کیسز دراصل وائرس کے پھیلاؤ کو ظاہر کرتے ہیں۔ جس کے جواب میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 'ٹیسٹنگ کی شرح میں 37 فیصد اضافہ ہوا ہے۔'

ردعمل میں 'فاکس نیوز' کے میزبان کا کہنا تھا: 'کیسز کی شرح 194 فیصد ہو چکی ہے۔ صرف ٹیسٹنگ کی تعداد ہی نہیں بڑھی بلکہ وائرس کا پھیلاؤ بھی زیادہ ہو چکا ہے۔'

گو کہ صدر ٹرمپ کئی بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ٹیسٹنگ کی زیادہ تعداد اور کم شرح اموات کی وجہ سے امریکہ اس وبا سے اچھی طرح نمٹ رہا ہے لیکن امریکی شہری اس بات پر قائل نہیں ہیں۔

حال ہی میں اے بی سی نیوز اور واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے کیے جانے والے ایک پول کے مطابق امریکی عوام صدر ٹرمپ کے مقابلے میں ممکنہ صدارتی حریف جو بائڈن کو وائرس سے نمٹنے کے لیے بہتر حکمت عملی رکھنے والے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پول میں سابق نائب صدر بائیڈن کو موجودہ صدر کے مقابلے میں کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے 20 پوائنٹس کی ناقابل شکست لیڈ حاصل ہے۔ پول میں شامل ہونے والے 54 فیصد افراد جو بائڈن کی حمایت کرتے ہیں جبکہ صدر ٹرمپ کو 34 فیصد شرکا کی حمایت حاصل ہے۔

دا لنکن پروجیکٹ جو کہ ایک ری پبلکن سپر پیک اور ٹرمپ مخالف گروپ ہے کی جانب سے بھی ایک لاکھ 40 ہزار ہلاکتوں پر صدر ٹرمپ کے خلاف ایک اشتہار بنایا گیا ہے۔ اشتہار کے آغاز میں کہا جاتا ہے کہ 'امریکہ کووڈ 19 کی ہلاکتوں کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے آگے ہے۔ ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد امریکی ہلاک ہو چکے ہیں۔ جن میں دوست، احباب، بہنیں، بھائی، ماں باپ شامل ہیں۔ ایک لاکھ 40 ہزار لاشیں۔'

اشتہار میں میکسیکو کے بارڈر پر بنائی گئی دیوار کی تصویر بھی دکھائی گئی ہے۔ اشتہار میں موجود وائس اوور میں مرنے والے افراد کے حوالے سے کہا گیا ہے: ' ایک ساتھ یہ 66 میل سے زائد کا رقبہ گھیر سکتے ہیں۔ یہ ایک ہزار 160 فٹ بال کے میدانوں میں پورے آ سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ دیوار تو بنا رہے ہیں لیکن وہ دیوار نہیں ہے جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔'

گذشتہ ہفتے کے اختتام پر 'نیویارک ٹائمز' میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے اپریل کے آغاز سے کرونا وائرس کے حوالے سے اپنے ردعمل کو محدود کر دیا تھا جس کا مقصد کرونا وائرس کے خلاف فتح پانے کا دعوی کرنا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 'وسطی اپریل میں شروع ہونے والے اہم پیریڈ سے صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے خود کو یہ یقین دلا لیا تھا کہ وبا کا پھیلاؤ کم ہو رہا ہے اور یہ کہ وہ ریاستی حکومت کو وہ تمام وسائل فراہم کر چکے ہیں جو وبا کے (embers) 'انگاروں' کو روکنے کے لیے کافی تھی اور اب وقت آ چکا ہے کہ لاک ڈاؤن کو تھوڑا نرم کر دیا جائے۔'

وائٹ ہاوس کے حکام کو جون میں جا کر یہ احساس ہوا کہ ان کا اندازہ غلط تھا اور یہ کہ وائرس نہ غائب ہو رہا ہے اور نہ ہی اس کے متاثرین کی تعداد کم وہ رہی ہے۔

صدر ٹرمپ نے کرس والیس سے انٹرویو کے دوران اپنی 'ایمبرز' کی اصلاح کو دہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ امریکہ کے اکثریتی علاقوں میں ابھی بھی یہی صورت حال ہے۔

صدر کا کہنا تھا:  'کچھ مقامات انگارے کی طرح ہیں اور کچھ شعلوں جیسے۔ فلوریڈا شعلے جیسا ہو چکا ہے لیکن ہم اس پر قابو پا لیں گے۔'

وائٹ ہاوس کرونا وائرس ٹاسک فورس کی دستاویز کے مطابق فلوریڈا امریکہ میں فی کس افراد کے لحاظ سے کووڈ 19 کے سب سے زیادہ کیسز کے ساتھ وبا کا مرکز بن چکا ہے۔ جبکہ 17 امریکی ریاستیں کیسز میں اضافے کے باعث کرونا وائرس کے 'ریڈ زون' میں شامل ہیں۔

صدر ٹرمپ کے دعوے کے برعکس حالیہ دنوں میں امریکہ میں کوئی ایسے علامت نہیں دیھکی گئی جس سے لگے سے وائرس غائب ہو ریا ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ