لاپتہ استاد سارنگ جویو کی بازیابی کی پٹیشن داخل نہ ہوسکی  

سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کرانے کی کوشش کی گئی تو عدالت نے کہا پرانی پٹیشن بھی ساتھ میں لگائیں۔ ’اب پیر کو دوبارہ پٹیشن داخل کرائیں گے۔‘

کراچی کے علاقے اختر کالونی سے گذشتہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب کو لاپتہ ہونے والے یونیورسٹی استاد سارنگ جویو کی بازیابی کے لیے ان کی اہلیہ سوہنی جویو کی جانب سے جمع کرائی ہوئی پٹیشن داخل نہ ہوسکی۔

سوہنی جویو کے وکیل ایڈووکیٹ عاقب راجپر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سارنگ جویو کئی ماہ سے جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کر رہے تھے۔ اس دوران انہیں پولیس نے تحویل میں لیا اور ہراساں کیا جس کے خلاف 6 اگست کو ایک پٹیشن داخل کی گئی کہ انہیں تحفظ دلایا جائے۔ مگر اب انہیں لاپتہ کر دیا گیا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب انہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کرانے کی کوشش کی تو عدالت نے کہا پرانی پٹیشن بھی ساتھ میں لگائیں۔ ’اب پیر کو دوبارہ پٹیشن داخل کرائیں گے۔‘

پینتیس سالہ سارنگ جویو سندھ کے نامور ادیب اور قوم پرست رہنما تاج جویو کے صاحبزادے اور دو بیٹیوں کے والد ہیں۔ وہ زیبیسٹ یونیورسٹی کراچی کے سندھ ابھیاس اکیڈمی شعبے میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ 

سارنگ جویو کی اہلیہ سوہنی جویو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: 'اگر سارنگ جویو پر کوئی الزام ہے تو ہمیں بتایا جائے تاکہ ہم انہیں بےقصور ثابت کرنے کے لیے کیس کریں۔ اس طرح جبری گمشدہ کر دینا کہاں کا انصاف ہے؟ ہم اپیل کرتے ہیں سارنگ کو جلد از جلد بازیاب کرایا جائے۔'

سندھ سے جبری طور پر لاپتہ کئے گئے افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ، سندھ سبھا اور سندھ سجاگی فورم کی جانب سے کئی ماہ سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج جاری ہے جس میں گمشدہ افراد کے لواحقین کے ساتھ سارنگ جویو، ان کی اہلیہ سوہنی جویو اور والد تاج جویو بھی مسلسل شرکت کرتے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس احتجاج کے دوران پہلے 50 دن تک احتجاجی کیمپ لگایا گیا۔ بعد میں 52 گھنٹوں کی بھوک ہڑتال کے بعد عید والے دن بھی احتجاج جاری رکھا گیا جو اب تک جاری ہے۔  

اس احتجاجی کیمپ پر سندھی زبان کے ایک جریدے کے پبلشر اور ایڈیٹر انعام عباسی بھی موجود تھے، جو خود کچھ عرصہ قبل دس ماہ کے لیے لاپتہ ہوگئے تھے۔

ان کے مطابق: 'جب میں لاپتہ ہوگیا تھا تو کئی لوگوں نے میری بازیابی کے لیے احتجاج کیا، اب میرا فرض بنتا ہے کہ میں بھی دوسرے لاپتہ افراد کے لیے احتجاج کروں۔ سارنگ جویو نے اس احتجاج میں نئی جان ڈالی تھی مگر اسے لاپتہ کردیا گیا۔ اب میں ان کی بازیابی کے لیے تادم مرگ بھوک ہڑتال کر رہا ہوں۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان