علامہ اقبال کے خواب کو ریاست مدینہ کہیں۔۔۔

ملک کے مسائل دیکھ کر جہاں میرے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ ہم 73 سال بعد کس راہ پر گامزن ہیں وہیں میرے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کیا جب میں نے سکول میں یہ خطبہ امتحان کے غرض سے یاد کیا تھا تو کیا سمجھا بھی تھا؟

(اے ایف پی)

پاکستان کے 73ویں یوم آزادی پر علامہ اقبال کا مشہور خطبہ الہ آباد یاد آ گیا جو کبھی سکول میں معاشرتی علوم کے امتحان میں پاس ہونے کے غرض سے یاد کیا تھا۔

آج جب اپنے وطن کے مسائل کو دیکھتی ہوں، تو تھوڑا سا خوف آتا ہے کہ کہیں ہم اپنے آبا و اجداد کو شرمندہ تو نہیں کر رہے، کہیں ہم دشمن کو یہ موقع تو نہیں فراہم کر رہے کہ وہ ہمارے بانیوں کا مذاق اڑائے کہ ہم نے ان کی لاج نہیں رکھی؟

خطبہ الہ آباد 29 دسمبر 1930  کو شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کو دیا تھا۔ ملک کے مسائل دیکھ کر جہاں میرے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ ہم 73 سال بعد کس راہ پر گامزن ہیں وہیں میرے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کیا جب میں نے سکول میں یہ خطبہ امتحان کے غرض سے یاد کیا تھا تو کیا سمجھا بھی تھا؟ یقیناً نہیں۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ اس یوم آزادی میں اسے دوبارہ پڑھوں گی اور اس مرتبہ خود بھی سمجھوں گی اور اپنے پڑھنے والوں کو بھی سمجھاوں گی۔

اس خطبے کا لب لباب میری رائے کے مطابق یہ تھا کہ علامہ اقبال نے دو بنیادیں باتیں کی تھیں۔ ایک تو یہ کہ ان کو اس چیز کا اندازہ ہوگیا تھا کہ ہم مختلف رنگ، نسل، مذہب اور زبانوں کے لوگ ایک خطے میں رہتے ہیں جسے ہندوستان کہا جاتا ہے لیکن ہم ایک نہیں ہیں۔ ہم الگ الگ ہیں اور آنے والے وقتوں میں قوی امکان ہے کہ مسلمانوں کو ان کے حقوق نہ ملیں، وہ سیاست میں وہ کرادار ادا نہ کر سکیں جو ہندو کریں گے۔ علامہ اقبال کے خطبے سے مجھے یہ سمجھ میں آئی کہ اپنے مذہب کی بنیاد پر ہم نے اپنی ثقافت بنانی ہے اور اپنی سیاست بنانی ہے۔ وہ سیاست نہیں جو آج ہم دیکھتے ہیں یا جسے آج ہم پاور پالیٹکس کہتے ہیں بلکہ عوام کے فلاح و بہبود کی سیاست۔

جو خواب علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا اگر اسی کو ہم ریاست مدینہ کا یا ایک فلاحی ریاست کا نام دے دیں تو غلط نہیں ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ اس خواب کو تعبیر کرنے میں اور حقیقت بنانے میں ایک مثالی قائد محمد علی جناح نے جو کردار ادا کیا اس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی لیکن اس مملکت خداداد کو فلاحی ریاست بناے کے لیے آج ہم کیا کر رہے ہیں؟

کسی بھی ملک کو فلاحی ریاست بنانے میں سب سے اہم کردار دو شعبے ادا کرتے ہیں اسی لیے ان کو ریاست کی ذمہ داری کہا جاتا ہے جو کہ صحت اور تعلیم کے شعبے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو چیز بھی ریاست چلاتی ہے مختلف وجوہات کی بنا پر اس کا معیار گر جاتا ہے اور جس چیز کو کوئی نجی کمپنی چلائے تو وہ اعلیٰ معیار پر پورا اترتی ہے۔ ایک المیہ یہ ہے۔ لیکن ہماری خوش نصیبی یہ ہے کہ جہاں پر بھی ان شعبوں میں کمیاں نظر آئیں وہاں فلاحی ادارے بنے جیسے شوکت خانم اور ایدھی سینٹرز۔ اور ایدھی جیسے، عمران خان جیسے، ابرار الحق جیسے، ڈاکٹر عبدالباری خان جیسے، ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے لوگ قوم کی مدد کو سامنے آئے۔

اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی بہت سے نجی ادارے ہیں جو کام کر رہے ہیں لیکن 22 کروڑ کی آبادی کو یہ نجی ادارے سہولیات فراہم نہیں کر سکتے اسی لیے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر تعلیم کے شعبے میں اصلاحات لانی ہوں گی۔ پچھلے کچھ عرصے میں ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی دنیا کی ٹاپ یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں نہیں آتی تھی لیکن 2004 میں ہماری چار یونیورسٹیاں دنیا کی ٹاپ یونیورسٹیوں کی لسٹ میں شامل ہوئیں۔

ہمارے نوجوان جو یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں ان میں چند ہی روشن چراغ بنتے ہیں ورنہ زیادہ تر نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت ایک analytical report  بھی نہیں لکھ سکتے۔ ہمیں یہ تناسب بدلنا ہو گا۔

کچھ کام ضرور ہو رہا ہے لیکن بہت کچھ کرنے کی گنجائش ابھی بھی موجود ہے۔ اور جشن آزادی کی خوشی میں ایک خوشخبری یہ ہے کہ ڈاکٹر عطاالرحمن نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ہری پور میں بننے والی پاک آسٹرین یونیورسٹی اب مکمل ہو چکی ہے اور وزیر اعظم چند ہفتوں میں اس کا افتتاح کریں گے۔

خطبہ الہ آباد کے بعد کے آٹھ سال بعد 1938 میں علامہ اقبال کا انتقال ہو گیا اور 1947 میں پاکستان بن گیا۔ کافی چیزیں تبدیل ہوئیں لیکن بنیادی نظریہ وہی رہا جو کہ تھا مساوات کا، انصاف کا، برابری کا، لوگوں کو حقوق ملیں، قول و فعل کی آزادی ہو۔

14 اگست کا دن ہم مناتے تو بڑے جوش و خروش سے ہیں اور منانا بھی چاہیے، اپنے بچوں کو اور نئی نسلوں کو قربانیوں کی داستانیں سنانی چاہییں لیکن یوم آزادی صرف جشن منانے کا دن نہیں ہےبلکہ یہ دن ہمیں دو سبق دیتا ہے۔

ایک تو یہ کہ آزادی کتنا بڑا تحفہ ہے اور دوسرا یہ کہ جب آزادی حاصل کر لی تو اس کے بعد اس حاصل شدہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کیا کیا گیا؟ کیونکہ کسی چیز کو حاصل کر لینا ہی کمال نہیں بلکہ اس کو ترقی کی راہوں پر گامزن رکھنا بھی کمال ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ انہوں اپنی بے باک اور دانشمندانہ قیادت سے صرف بات چیت کر کے اور دلیلیں دے کر الگ وطن حاصل کر لیا اور وہ بھی اس طاقت سے جس کا دنیا پر راج تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن کیا ہم قائد اعظم کے نقش قدم پر چلے؟ کیا ہم نے یہ سوچا کہ وہ کیا کردار ہو گا جس کے بارے میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کہتا تھا کہ میں کبھی قائد اعظم سے میٹنگ کرنے کے لیے تیاری کے بغیر جانے کا سوچ نہیں سکتا کیونکہ ان کو کسی اور چیز سے خوش نہیں کیا جا سکتا تھا اور اس کی وجہ ان کے اصول تھے۔

یقیناً وہ ایک غیر معمولی شخصیت کے مالک تھے اور صدیوں میں ایسے رہنما پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے بچوں کو ان کا کردار انکی زات کے مختلف پہلووں سے کتنا روشناس کرایا؟ لیڈر کو کیسا ہونا چاہیے اور ہمارے ملک میں سیاسی رہنما کیسے ہیں اسکا تعین کرنے کے لیے نیلسن منڈیلا کا ایک قول ہے کہ سیاست دان اپنے اگلے اتخابات کی فکر کرتا ہے اور رہنما وہ ہوتا ہے جس کو اگلی نسل کی فکر ہوتی ہے۔

قوموں کی زندگیوں میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں لیکن اس وقت اگر ہم نے کامیابیوں کی جانب سفر کرنا ہے تو ہمیں اپنے ملک کی اس 65 فیصد آبادی پر بے انتہا توجہ دینی ہو گی جو30 سے 35 سال کی عمر کی ہے کیونکہ اگر ان کو ہم نے وسائل اور توجہ دی تو یہی اس ملک کا مستقبل ہیں اور روشن مستقبل ہیں، لیکن اگر ان کو نظر انداز کیا گیا، ان کی تعلیمی ضروریات کو نہ سمجھا گیا تو یہی اس ملک کے مستقبل کو بگاڑ بھی سکتے ہیں۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم جو بھی کریں اچھا یا برا، صحیح یا غلط اس کا ہمارے ملک پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ ملک سے مانگا ہے، لیا ہے، تولا ہے کہ ہمیں ملک نے کیا دیا لیکن اس یوم آزادی خود سے یہ سوال کریں کہ آپ نے اس ملک کے لیے کیا کیا؟ اور کیا کر رہے ہیں؟ آپ نے ایسا کیا کیا کہ  قائد اعظم اور اقبال کو آپ پر فخر ہو؟

یہ ملک غریب ضرور ہے، پیچھے بھی ہے دنیا کے کئی ممالک سے کئی شعبوں میں لیکن اس ملک کے آبا نے اسے اپنے خون پسینے سے سینچا ہے اس کو وہ ریاست بنانا ہوگی جس کا خواب دیکھا گیا تھا تاکہ ہم اصل معنوں میں فلاحی ریاست دیکھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر