چینی منصوبہ جس سے مغربی طاقتیں خوف زدہ

اگر ہمیں چینی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تو چین کو بھی اپنے علاقائی اور عالمی مفادات بڑھانے کے لیے ہماری زیادہ ضرورت ہے اور اس ضرورت کے رشتے کو ہمیں اپنے مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے دانش مندی سے استعمال کرنا چاہیے۔

بی آر آئی دنیا کی 60 فیصد آبادی پر پھیلا ہوگا (ورلڈ بینک)

چینی صدر شی جن پنگ کے کھربوں ڈالرز کا تیزی سے آگے بڑھتا ہوا عالمی مواصلاتی ترقیاتی منصوبہ بی آر آئی جس میں 71 ممالک شامل ہیں، بڑی طاقتوں کی بےچینی کا سبب بن رہا ہے۔

امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں اس خدشے میں مبتلا ہیں کہ یہ منصوبہ موجودہ عالمی سلامتی اور معاشی نظام کو درہم برہم کر دے گا۔ انہیں یہ بھی تشویش ہے کہ یہ منصوبہ امریکی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے اثر و رسوخ میں نمایاں کمی کر دے گا حتی کہ چینی کرنسی بھی ڈالر کی جگہ لے سکتی ہے۔ وہیں اس کٹھن اور بلند نظر منصوبے نے چینی حکومت کے لیے کچھ مسائل بھی پیدا کیے ہیں اور اس کی کافی جگہوں پر سرمایہ کاری ضائع ہوتے ہوئے بھی نظر آ رہی ہے۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ (بی آر آئی) منصوبہ کیا ہے اور مغربی طاقتیں اس سے کیوں خوفزدہ ہیں؟ کیا یہ منصوبہ حقیقت میں چین کے لیے کارآمد ثابت ہوگا اور اس کے بین الاقوامی اثر رسوخ میں اضافہ کرسکے گا؟ کیا اتنی بڑی چینی سرمایہ کاری چین کے اپنے اندر مختلف کم ترقی یافتہ علاقوں میں معاشی بےچینی میں اضافہ کرے گی؟

ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق براعظم ایشیا میں 2030 تک مختلف ضروری مواصلاتی بنیادی ڈھانچوں کو تعمیر کرنے کے لیے 26 کھرب ڈالرز چاہیے ہوں گے۔ ان بڑھتی ہوئی مواصلاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایشیا میں مختلف علاقائی تعاون کی تنظیموں نے اپنے درمیان سڑکوں کے رابطے بڑھانے کے لیے کئی منصوبوں کی ابتدا کی ہے اور بی آر آئی ان میں سے سب سے بڑا منصوبہ ہے۔

بی آر آئی صرف ایشیا نہیں بلکہ یورپ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کو سڑکوں کے جال اور سمندری گزرگاہوں سے ملانے کا منصوبہ ہے اور یہ دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ شرح نمو اور دو تہائی آبادی کی نمائندگی کرتا ہے۔

بی آر آئی تعاون کے پانچ بڑے اصولوں پر کام کر رہا ہے۔ اس میں 71 شریک ممالک میں پالیسی کی سطح پر تعاون شامل ہے جس سے یہ ممالک مواصلاتی رابطوں پر ایک ہی پالیسی بنانے کی کوشش کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر میں ان ممالک میں رابطے اور ہم آہنگی کا اہم کردار ہوگا اور تکنیکی نظام کے ایک جیسے معیار طے کیے جائیں گے۔ ایک اہم اصول کھلی اور بغیر کسی رکاوٹ کے تجارت ہوگی اور اس میں حائل تمام رکاوٹوں کو ختم کیا جا سکے گا۔

تمام شریک ممالک ایک طرح کی مالیاتی پالیسیاں بنائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ مالیاتی اداروں کی تشکیل ہوگی تاکہ پیسے کی قدر و قیمت میں کمی یا بڑھنے سے کسی ایک فریق کو نقصان نہ پہنچے۔ اور آخر میں لوگوں کے درمیان ثقافتی، تعلیمی اور نشریاتی رابطوں میں بھی تعاون بڑھایا جائے گا۔

ان تمام منصوبوں کی سرمایہ کاری مختلف چینی سرکاری اور نجی بینک اور مالیاتی ادارے کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ کچھ منصوبوں پر سرمایہ کاری میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے جیسے ایشیائی ترقیاتی بینک اور ایشیا انفراسٹرکچر بینک بھی شامل ہیں۔ ایک ابتدائی تخمینے کے مطابق اس منصوبے پر تقریبا چار سے آٹھ کھرب ڈالرز خرچ ہوں گے اور ایک اندازے کے مطابق چین اب تک اس منصوبے پر 250 ارب ڈالرز سے زیادہ خرچ کر چکا ہے۔

چین اس منصوبے سے اپنی معاشی ترقی کی رفتار مزید تیز کرنا چاہتا ہے اور ساتھ میں اپنی علاقائی اور بین الاقوامی برتری بھی بڑھا کے دنیا میں اپنا جائز مقام حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ سے بڑھتے ہوئے تجارتی تنازع اور پابندیاں اور چین کے اندر کم ہوتی ہوئی شرح نمو سے نمٹنے کے لیے چین کو نئی منڈیوں کی تلاش ہے اور یہ منصوبہ ان اہداف کو حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس منصوبے سے چین بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے کام کرنے کے انداز اور ان کے مالیاتی پروگراموں پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے اور عالمی سطح پر زوردار طریقے سے اپنی موجودگی کا احساس دلا سکتا ہے۔

چین کے اندر مختلف خطے کم ترقی یافتہ ہیں اور اگر انہیں باقی ملک میں جاری ترقی کے پروگرام میں شامل نہ کیا گیا تو وہاں پر سیاسی بےچینی بڑھنے کا خدشہ ہے۔ اس لیے اس منصوبے کے تحت چین اپنے مغربی صوبوں میں ترقی کی رفتار بڑھانا چاہتا ہے۔ یہ صوبے کئی دہائیوں سے معاشی لاپرواہی کا شکار رہے ہیں۔ اس منصوبے سے چین متوسط آمدنی کے جال سے نکل کر ہائی ٹیک صنعتوں اور مصنوعات پر توجہ دینا چاہتا ہے جس سے وہ متوسط آمدنی والے ملک سے نکل کر اگلے درجے کے ممالک کی صف میں شامل ہوسکے گا۔

اس منصوبے سے موجودہ عالمی سلامتی اور معیشت کا ڈھانچہ خطرے میں ہے تو اس کے مخالف مغربی ممالک اور اداروں نے اس کے خلاف پروپیگینڈا بھی تیز کر دیا ہے جس میں کچھ حقیقت مگر بہت زیادہ مبالغہ آرائی بھی شامل ہے۔ بہت سارے مغربی مالیاتی ادارے بی آر آئی کے پیسوں کو زہر کے پیالے سے تعبیر دے رہے ہیں کیونکہ زیادہ تر منصوبوں کی سرمایہ کاری عطیہ یا گرانٹ کی بجائے سودی قرضے کی بنیاد پر ہے۔

بی آر آئی منصوبوں میں بولیوں کا طریقہ کار بھی مشکوک رہا ہے۔ اور یہ کام صرف چینی کمپنیوں کو دیا گیا ہے جس سے شفافیت متاثر ہوئی ہے اور ٹھیکیداروں نے بھی بڑھا چڑھا کر بولیاں دے کر ٹھیکے حاصل کیے۔ اس سے کئی منصوبے ختم کرنے پڑے اور ان سے چین کو سیاسی نقصان بھی ہوا۔ جیسا کہ ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتر نے ان منصوبوں پر سخت نکتہ چینی کی اور تقریبا 22 ارب ڈالرز کے ٹھیکے منسوخ بھی کر دیئے۔ مہاتر کا خیال تھا کہ ان ٹھیکوں سے بہت سارے پیسے سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کیے گئے۔

اسی طرح کے مسائل کا چین کو قزاقستان میں بھی سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے ہاں بھی بہت سارے منصوبوں پر اسی طرح کی تنقید کی گئی گی ان تمام منصوبوں کے خلاف بین الاقوامی پروپیگینڈا میں یہ عنصر غالب ہے کہ چینی امداد ایک جال ہے جس میں پھنس کر ممالک اپنی سیاسی اور معاشی آزادی کھو بیٹھیں گے۔ ان وجوہات کی بنا پر 2018 کے اواخر میں ان منصوبوں میں سرمایہ کاری میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی لیکن 2019 میں پھر سے ان میں قدرے بہتری بھی دکھائی دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کئی ممالک میں کچھ منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری سے مطلوبہ نتائج نہیں حاصل ہوئے ہیں۔ ان منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری مکمل طور پر ڈوبنے کا خطرہ ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق بی آر آئی میں نتائج نہ دینے والے اثاثوں کی مالیت 102 ارب ڈالرز کے قریب پہنچ چکی ہے مثلا سری لنکا میں حاصل شدہ بندرگاہ کے نقصانات 340 ملین ڈالرز سے زیادہ ہو چکے ہیں۔

بی آر آئی کی وجہ سے چین کے اندر مختلف علاقوں میں بھی بےچینی کے اثرات نظر آرہے ہیں۔ چینی حکومت کے دعوے کے برعکس، بی آر آئی کے وسائل کی غیر متوازن تقسیم نے شمالی مغربی اور جنوبی مغربی چین کو ان منصوبوں میں برابری کی بنیاد پر حصہ نہیں لینے دیا گیا ہے جو کہ چین کے مختلف خطوں کے درمیان ترقیاتی عدم مساوات کو بڑھا رہا ہے۔ چین کی اندرونی سیاست کو سمجھنے والوں کے خیال میں یہ عدم مساوات چین میں اندرونی سیاسی استحکام کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔

بی آر آئی ایک بہت بڑا منصوبہ ہے اور اس کی کامیابی سے دنیا کا معاشی، مالیاتی اور سیاسی نقشہ تبدیل ہو سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سلامتی اور امن کو بھی اس سے خطرات لاحق ہیں۔ مغربی طاقتیں اس قدر آسانی سے چین کو ان کا اثر رسوخ ختم کرنے نہیں دیں گی جو ساری دنیا کو ایک خطرناک سیاسی اور معاشی تصادم کی طرف لے جا سکتا ہے۔

پاکستان میں اس منصوبے پر بڑے زور و شور سے کام ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے 2015 سے 2018 تک ہماری شرح نمو میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے ہاں ان منصوبوں سے مواصلات کے نظام میں بہتری آئی اور توانائی کے بحران کو قابو کرنے میں بھی مدد ملی۔ ہمیں اس منصوبے میں شامل رہتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے تعلقات دو طرفہ ٹریفک کی بنیاد پر ہونے چاہیے اور ہمیں اس کا حصہ رہتے ہوئے اور چین سے تعلقات مضبوط کرتے ہوئے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کا دفاع کرنا چاہیے۔

اگر ہمیں چینی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تو چین کو بھی اپنے علاقائی اور عالمی مفادات بڑھانے کے لیے ہماری زیادہ ضرورت ہے اور اس ضرورت کے رشتے کو ہمیں اپنے مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے دانش مندی سے استعمال کرنا چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ