ایک نئی تحقیق کے مطابق موجودہ دور میں پیدا ہونے والے بچوں کی زندگی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اوسطاً 20 ماہ کم ہو سکتی ہے اور اس کے زیادہ اثرات جنوبی ایشیا میں ہوں گے۔
دی سٹیٹ آف گلوبل ایئر کی یہ رپورٹ بدھ کو امریکی ہیلتھ افیکٹس انسٹیٹیوٹ اور یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا نے شائع کی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں ملیریا، ٹریفک حادثات، غذائی کمی یا الکوحل کے بعد قبل از وقت اموات کی پانچویں سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔
تاہم محققین نے خبردار کیا ہے کہ ’متوقع زندگی میں کمی سب میں برابر نہیں‘۔ جنوبی ایشیا میں بچوں کی زندگی میں 30 ماہ تک کی کمی آ سکتی ہے جس کی وجہ گھر سے باہر ماحولیاتی آلودگی اور گھر کے اندر صفائی کا نہ ہونا ہے۔
تحقیق میں مشرقی ایشیا کے بارے میں کہا گیا کہ وہاں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے بچوں کی زندگیاں اندازاً 23 ماہ تک کم جبکہ شمالی امریکہ اور ایشیا پیسیفک کے ترقی یافتہ حصوں میں بچوں کی زندگی میں 20 ہفتوں کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رپورٹ میں 2017 کے اختتام تک کے اعداد و شمار شامل ہیں اور کہا گیا ہے کہ اگر ماحولیاتی آلودگی کو قابو کر کے عالمی ادارہ صحت کے اصولوں کے مطابق لایا جائے تو بنگلہ دیش میں متوقع زندگی کی مدت سب سے زیادہ 1.3 سال تک آ جائے گی۔
اس کے علاوہ پاکستان، بھارت اور نائجیریا میں بھی متوقع زندگی کی مدت بڑھ کر ایک سال تک آ سکتی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے سرکاری سطح پر قوانین بنانے کے باوجود چین میں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہونے والی اموات دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ ہیں، جہاں صرف 2017 میں آلودگی کی وجہ سے آٹھ لاکھ 52 ہزار اموات ہوئیں۔
ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے سب سے زیادہ اموات کے حوالے سے سرفہرست پانچ ممالک ایشیا کے ہیں جن میں چین، بھارت، پاکستان، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 2017 میں صحت مند زندگی کے کل 14 کروڑ 70 لاکھ سال کھو دیے گئے۔
اسی طرح گھروں کو گرم رکھنے یا کھانا پکانے کے لیے کوئلہ یا لکڑی جلانے سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی سب سے زیادہ جنوبی ایشیا، مشرقی ایشیا اور سب صحارا افریقہ میں دیکھی گئی ہے۔
چین میں 45 کروڑ جبکہ بھارت میں 84 کروڑ 60 لاکھ لوگوں سمیت دنیا کی تقریبا آدھی آبادی گھروں میں پیدا ہونے والی فضائی آلودگی سے متاثر ہوتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پچھلے اکتوبر میں ایک مطالعے سے پتا چلا کہ گھروں میں یا باہر مضر ہوا سے ہر سال 15 سال سے کم عمر چھ لاکھ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
مطالعے میں بتایا گیا کہ بچے بڑی عمر کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے سانس لیتے ہیں لہذا ان کے پھیپھڑوں کے متاثر ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈیٹا سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ روزانہ 15 سال سے کم عمر بچے 93 فیصد انتہائی مہلک ہوا میں سانس لیتے ہیں۔