کشمیر: آئینی حیثیت بحالی پر کانگریس سمیت چھ سیاسی جماعتیں پرعزم

بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے چھ سیاسی جماعتوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے فیصلے کے خلاف جدوجہد کا اعلان کیا ہے۔

(اے ایف پی)

اے ایف پی: بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے چھ سیاسی جماعتوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے فیصلے کے خلاف جدوجہد کا اعلان کیا ہے۔

بھارتی حکومت کی جانب سے گذشتہ سال ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثت کو تبدیل کرنے کے بعد خطے میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے جب کہ لاک ڈاون اور سخت پابندیوں کے باعث معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔

ان جماعتوں میں چار بھارت نواز جب کہ دو بھارتی سیاسی جماعتیں شامل ہیں جن میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس بھی شامل ہے۔ ان جماعتوں کی جانب سے جاری کیے جانے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے فیصلے نے کشمیر اور نئی دہلی کے درمیان 'تعلق کو مکمل طور پر بدل دیا ہے۔' یہ فیصلہ 'دور اندیشی کے فقدان پر مبنی اور غیر آئینی' ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ 'ہم کشمیر کے لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہماری تمام سیاسی سرگرمیاں کشمیر کی چار اگست 2019 کی حیثیت کو بحال کرنے کے مقدس مقصد کے تحت ہوں گی۔' 

گذشتہ سال پانچ اگست کو وزیر اعظم نریندرا مودی کی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کے فیصلے کی منظوری دی تھی جس کے بعد اس خطے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت کے فیصلے کے بعد کشمیر میں ہزاروں نوجوانوں سمیت کشمیر کی آزادی کے لیے سرگرم اور بھارت نواز سیاست دانوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ خطے میں تب سے سخت پابندیاں نافذ ہیں اور مواصلاتی نظام کئی ماہ تک مکمل طور پر بند رہا۔

خبر رساں ادارے کے مطابق کشمیر میں تقریبا تمام بھارت نواز سیاست دانوں کو حالیہ مہینوں کے دوران رہا کیا جا چکا ہے جب کہ کچھ بندشوں میں بھی نرمی لائی جا چکی ہے جس کے بعد ایک بار پھر سے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو رہا ہے۔

اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں بھارتی پارلیمان کے رکن فاروق عبداللہ بھی شامل ہیں جو کشمیر میں بھارت نواز جماعت کے سربراہ ہیں جبکہ کشمیر میں کانگریس کے سربراہ غلام احمد میر بھی شامل ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ 'بھارتی حکومت کے اقدامات ہماری شناخت کو بدلنے کی کوشش ہیں۔'

کشمیر میں 1989 سے عسکریت پسندوں کی جانب سے بھارتی حکومت کے خلاف کارروائیاں بھی جاری ہیں جن میں عام شہریوں، عسکریت پسندوں اور حکومتی فورسز سمیت ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بھی گذشتہ اگست سے مزید کشیدگی کا شکار ہو چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا