پاکستان اور افغان طالبان ایک دوسرے سے کیا چاہتے ہیں؟

پاکستان کی جانب سے پابندی کے باوجود ملا عبد الغنی برادر دیگر افغان طالبان رہنماؤں کے ہمراہ اسلام آباد میں ہیں، ان کے اس دورے سے پاکستان اور طالبان کو کیا حاصل ہو گا؟

تین اکتوبر، 2019 کو جاری ہونے والی اس تصویر میں ملا عبد الغنی برادر اسلام آباد میں دفتر خارجہ آ رہے ہیں (اے ایف پی)

حکومت پاکستان نے قطر میں افغان طالبان کے نائب رہنما اور سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر اور حقانی نیٹ ورک کے موجودہ رہنما سراج الدین حقانی سمیت متعدد دیگر عہدے داروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

تاہم دوسری جانب یہی ملا عبدالغنی برادر طالبان وفد کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچے ہیں جس پر ہر کسی کا حیران ہونا شاید بےجا نہیں۔ حکومت کا یہ اقدام منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت سے نمٹنے کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے مطالبات کے مطابق ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ملا برادر، حقانی اور متعدد دیگر اراکین کو ایسی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جس کے تحت ان کے اثاثے منجمد اور ملک میں سفر اور اسلحہ رکھنے کا حق نہیں ہوگا۔ تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق طالبان رہنما اقوام متحدہ سے امن مذاکرات میں شرکت کی بنیاد پر سفر کی اجازت لے سکتے ہیں۔

پاکستان اس وقت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں ہے۔ اس سال کے آخر میں پاکستانی حکومت کے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے ٹاسک فورس کا اجلاس طے ہے۔ 2017 میں پاکستان کو دہشت گردی کی مالی اعانت کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیے جانے کا خطرہ تھا۔ اگر پاکستان کو اس فہرست میں شامل کیا گیا تو معاشی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں اسے سخت نقصان پہنچے گا۔

سینیئر صحافی اور افغان امور کے ماہر سمیع یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ اس دورے کا مقصد پاکستان کی جانب سے طالبان پر بین الافغان مذاکرات کے لیے دباؤ بڑھانا ہے۔ ’پاکستان کی بھی بظاہر کوشش ہے کہ افغانستان امن عمل کا اگلا پڑاؤ جلد شروع ہو۔‘

لیکن پاکستان کی جانب سے متعدد طالبان عہدے داروں پر پابندیاں ایک ایسے وقت پر لگائی گئی ہیں جب ان کے موثر ہونے کے امکانات کم ہیں۔ امریکہ بھی طالبان کو دہشت گرد قرار دیتا ہے لیکن ساتھ میں مذاکرات بھی کر رہا ہے اور امن معاہدے بھی۔

ملا برادر اس وقت قطر کے شہر دوحہ میں ہیں اور اطلاعات کے مطابق انہوں نے اپنے خاندان کے اکثر اراکین اور اثاثوں کو وہاں منتقل کر دیا ہے۔ سراج الدین حقانی کے ٹھکانے کا پتہ بھی نہیں چل سکا۔ دوسری طرف، طالبان نے کئی سالوں سے پاکستان میں اپنے اثاثے نہیں رکھے ہیں۔ اس سلسلے میں خلیج فارس کے ممالک مالی وسائل اور سرمایہ کاری کو چھپانے کے لیے بہترین جگہ ہیں۔

بظاہر لگتا ہے کہ متعدد طالبان عہدے داروں کے خلاف پاکستانی پابندیوں کے ذریعے دنیا انہیں پاکستان کے اثرورسوخ سے دور رکھنا چاہتی ہے لیکن پاکستان نے انہیں اسلام آباد مدعو کرکے اس تاثر کی نفی کر دی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان اور پاکستان ایک دوسرے کی اہمیت سے واقف ہیں لیکن کچھ سیاسی ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ ہوسکتا ہے پاکستان نے امریکی حکومت کے دباؤ میں ایسا کیا ہو تاکہ وہ طالبان کو بین الافغان مذاکرات میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان اب تک ان مذاکرات میں شرکت پر آمادگی ظاہر کرچکے ہیں البتہ اپنے باقی ماندہ اسیر ساتھیوں کی رہائی کے بظاہر منتظر ہیں۔ ان طالبان رہنماؤں کو پابندیوں کی فہرست میں شامل کرنے سے کوئٹہ اور یہاں تک کہ پشاور میں طالبان شوری سے ان کے مبینہ براہ راست رابطوں سے روکنے کی ایک کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ الزام ہے کہ پاکستان میں اب بھی متعدد شدت پسند نیٹ ورکس موجود ہیں۔

بعض طالبان اہل کاروں کے خاندان ابھی بھی مبینہ طور پرپاکستان کے مختلف شہروں میں رہتے ہیں۔ ان میں سے بعض بغیر کسی روک ٹوک کے پاکستان میں تجارت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں اپنی سرگرمیاں اور عام طور پر سکولوں اور ہسپتالوں سے لے کر رہائش، ٹریفک، تجارت اور بیرون ملک سفر کے امکانات تک مکمل رسائی دستیاب ہے۔

تاہم یہ واضح ہے کہ پاکستان کا یہ اقدام دنیا اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی نظروں میں اچھا بننے کی ایک کوشش کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس اقدام کا واحد قابل ذکر اثر خود پاکستان پر پڑے گا اور وہ یہ کہ اسے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے خارج کر دیا جاسکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا