وزیرستان: چلغوزے کے جنگلات کا مشہور علاقہ شوال کھل گیا

صوبائی وزیر ریلیف و آباد کاری اقبال وزیر کے مطابق حکومت اور مقامی لوگوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں ان لوگوں کو شوال کے پہاڑی علاقوں میں جانے کی اجازت مل گئی جن کی وہاں ذاتی ملکیت ہے۔

شوال کے علاقے میں فوج  کی ایک چوکی (اے ایف پی فائل)

پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں چلغوزے کا مشہور جنگلات والے علاقے شوال عام شہریوں کے لیے کھول دیا گیا ہے تاہم ڈپٹی کمشنر نے رہداری کو ضروری قرار دیتے ہوئے  کہا ہے کہ راہداری کے  بغیر کسی کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

یاد رہے کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد شوال کے پہاڑی سلسلوں میں مخصوص لوگوں کے علاوہ اور کسی کے جانے پر پابندی تھی۔

صوبائی وزیر ریلیف و آباد کاری اقبال وزیر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت اور مقامی لوگوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں ان لوگوں کو شوال کے پہاڑی علاقوں میں جانے کی اجازت مل گئی جن کی وہاں ذاتی ملکیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ شوال جانے والے لوگ ڈپٹی کمشنر سے راہداری حاصل کرنے کے پابند ہوں گے۔ اقبال وزیر کے مطابق اس معاہدے پر رہائشی بہت خوش ہیں کیونکہ وہ اپنی چلغوزے کی فصل کاٹنے کے لیے بیتاب تھے۔

شمالی وزیرستان کے علاقے گڑیوم کے رہائشی محمد آمین نے انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ شمالی وزیرستان میں اکثر خاندانوں کا چولہا چلغوزوں کے فصل سے چلتا ہے اور کافی عرصے سے لوگ شوال جا نہیں پا رہے رتھے کیونکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ اس علاقے میں ابھی دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہوا۔

محمد آمین نے مزید کہا: 'اب ڈپٹی کمشنر کی جانب سے راہداری حاصل کرنے پر وہاں جانے کی اجازت مل گئی ہے مگر یہ بہت زیادہ تکلیف دہ عمل ہوگا۔کیونکہ اگر کوئی وہاں اپنے  ساتھ کسی مزدور کو لے جانا چاہے گا اور اس کا نام راہداری لسٹ میں شامل نہیں ہوگا تو وہ وہاں نہیں جاسکتا ہے۔'

شوال کے رہائشی ہدایت اللہ نے انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ افغان سرحد کے قریب تحصیل شوال کے گاؤں زووئی میں آباد سیدگی قبائل ضرب عضب کے دوران سرحد کے اس پار افغانستان چلے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ گاؤں سیدگی کی آبادی گیارہ سو خاندانوں پر مُشتمل تھی اور ابھی تک کسی بھی خاندان کے ایک فرد کو واپس آنے نہیں دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق سیدگی قبائل کا پہاڑی علاقہ چلغوزے کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور سیدگی قبائل کے آمدن کا اہم ذریعہ بھی یہی تھا۔.

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہدایت اللہ کے مطابق گذشتہ چھ سالوں سے سیدگی قبائل چلعوزے سے آمدن سے محروم ہیں اور اب سرحد پر باڑ لگانے کے بعد سرحد کے اس پار نقل مکانی کرنے والے مزدید مایوس ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیدگی قبائل کے مشران نے کئی بار حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کو اپنے ملک آنے دیا جائے مگر حکام کا کہنا ہے کہ سرحد کے اس پار افغانستان کے علاقے رخہ، مانگڑیتی میں آباد سیدگی قبائل کے ساتھ ساتھ شدت پسند طالبان کے ٹھکانے بھی موجود ہیں اور واپسی کے دوران یہ خدشہ رد نہیں کرسکتے کہ عام قبائلیوں کے شکل میں شدت پسند طالبان پاکستان میں داخل ہوجائیں گے۔

آمین نے بتایا کہ صوبائی حکومت چلغوزے پر بھاری ٹیکس بھی لے رہی ہے جو  رہائشیوں سے ناانصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک کلو پر سو روپے ٹیکس مقرر ہے جو جنوبی وزیرستان سے آنے والے ٹرکوں سے ٹانک میں اور شمالی وزیرستان سے آنے والے ٹرکوں سے بنوں کے مقام پر لیا جاتا ہے۔

محکمہ جنگلات کے مطابق 2012 میں ایک سروے کیا گیا تھا جس کے مطابق چلغوزے کا ایک سال میں 13 ارب روپے کا کاروبار ہوا تھا۔ اہلکار کے مطابق ایک کلو پر سو روپے کا ٹیکس صوبائی حکومت کے خزانے میں جاتا ہےجس کے لیے باقاعدہ قانون بنانے کے لیے سمری صوبائی حکومت کو ارسال کی ہے۔

اہلکار نے کہا کہ انضمام سے پہلے چلغوزے کے کاروبار  کے لیے کوئی قانون موجود نہیں تھا اور اب صوبائی حکومت نے تمام قبائلی علاقوں میں شامل جنگلات کو قانونی شکل دینے کے لیے محکمہ جنگلات  کی جانب سے صوبائی حکومت کو ایک سمری بھیجی گئی ہے جس میں جنگلات کی تحفظ اور حاص کر قیمتی درختوں کی کٹائی کے حوالے سے قانون بنانے کا مشورہ دیاگیا ہے۔

واضح رہے کہ وزیرستان میں محکمہ جنگلات کے ایک اندازے کے مطابق شوال اور ملحقہ علاقوں میں 21 ہزار ایکڑ رقبے پر چلغوزے کا جنگل پھیلا ہوا جو چلغوزے اور اخروٹ جیسے قیمتی خشک میوہ جات سے مالا مال ہے۔  

   

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان