اوکاڑہ کی وکیل خاتون کے اغوا کا معمہ

پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک خاتون وکیل نے اپنا بیان ریکارڈ نہیں کروایا مگر جب وہ بیان ریکارڈ کروائیں گی تو وہ اس کیس کی تفتیش پوری ایمان داری کے ساتھ کریں گے۔

سوشل میڈیا پر دو روز قبل ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک خاتون انتہائی خوفزدہ حالت میں بتا رہی ہیں کہ انہیں چار افراد نے اغوا کیا۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ  خاتون کے اردگرد لوگوں  کا ہجوم موجود ہے جن میں سے کسی نے ان سے پوچھا کہ ان کے ہاتھ کھول دیں تو انہوں نے کہا، ’میں وکیل ہوں میرے سر پر ڈوپٹہ دے دیں۔‘

اس مبینہ طور پر اغوا ہونے والی خاتون کا نام ایڈووکیٹ ارشاد نسرین ہے جن کا تعلق ضلع اوکاڑہ کی تحصیل دیپال پور سے ہے۔ ان کے بیٹے  معیز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 15 اگست کی صبح نو بجے ان کی والدہ کچہری میں اپنے چیمبر سے واش روم تک گئیں اور اس کے بعد واپس نہیں آئیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 23 اگست کی شب انہیں اغوا کرنے والے نامعلوم افراد دیپال پور سے چار گھنٹے کی مسافت پر واقع میلسی کے قریب ایک سڑک کنارے  پھینک کر چلے گئے۔ ’وہاں سے میری والدہ نے مجھے کسی کے موبائل سے فون کیا اور میں وہاں پہنچ گیا۔‘

معیز کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی والدہ کی گمشدگی کی ایف آئی آر تھانہ سٹی دیپال پور میں درج کروائی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ کا جائیداد کا اپنا بھی کچھ مسئلہ چل رہا تھا جبکہ وہ کسی اور کی جائیداد کا مقدمہ بھی لڑ رہیں تھیں۔ 

ایڈووکیٹ ارشاد نسرین اس وقت دیپال پور تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اغوا کے دوران ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی بھی کی گئی جس کی وجہ سے انہیں مختلف انفیکشنز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کی طبعیت ابھی ٹھیک نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’مجھے یہ نہیں یاد کہ کتنے لوگ تھے بس یہ جانتی ہوں کہ میرے ساتھ ظلم ہو گیا ہے۔‘

ارشاد نسرین نے بتایا کہ انہوں نے ابھی پولیس کو اپنا بیان قلمبند نہیں کروایا کیونکہ وہ ابھی خود کو حواس میں محسوس نہیں کر رہیں ہیں۔ ارشاد کا کہنا تھا، ’میری ذاتی قانونی چارہ جوئی چل رہی تھی اور انہیں لوگوں کے خلاف میں کونسل بھی گئی تھی۔ میرے مخالفین ایک مرتبہ پہلے بھی 2019 میں مجھے اغوا کر کے مار پیٹ کر پھینک گئے تھے مگر اس وقت مقامی پولیس نے ایف آئی آر میں انہیں تکنیکی طریقوں سے انہیں اس طرح تحفظ دیا کہ ان کی ضمانت ہو گئی۔ ’وہ ضمانتیں میں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کی ہوئی ہیں۔ مگر کرونا کی وجہ سے ابھی ان کیسوں میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔‘

انہوں نے تاہم اس تازہ واقعے میں کیا ہوا اس بارے میں ابھی مزید کچھ بتانے سے گریز کیا۔

ارشاد کا کہنا تھا کہ وہ دیپال پور چھوڑ کر لاہور منتقل ہو گئی تھیں لیکن پھر ان کے مخالفین نے ان کی ایک 70 لاکھ روپے کی دکان اور ایک پلاٹ پر قبضہ کے ساتھ ساتھ ان کی کلائنٹ ذکرا بی بی جو ادھیڑ عمر کی غیر شادی شدہ خاتون ہیں اور ان کی اربوں کی جائیداد ہے اس پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس کے خلاف بھی ایک اور ایف آئی آریں درج کروائی ہوئی ہے۔

ان کا خاندانی پس منظر بھی مسائل سے اٹا ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’میری پہلی شادی پسند کی تھی جس سے میری ایک بیٹی ہے جو شادی شدہ ہے مگر وہ شادی دونوں خاندانوں کی ناپسندیدگی کی وجہ سے نہیں چلی۔ میرے سابق شوہر کے بھائی نے ان کی طلاق کروائی اور ان کی جائیداد کے حوالے سے چلنے والے کیسسز میں وہ مخالف وکیل بھی ہیں اور میں ان کے خلاف اپنے اور اپنی کلائنٹ کے کیسسز میں وکیل ہوں۔'

ارشاد نے بتایا کہ ان کی دوسری شادی ان کے والدین کی مرضی سے ہوئی جن سے ان کے چار بچے ہیں مگر وہ شادی بھی کچھ خاندانی وجوہات کی بنا پر نہیں چل سکی۔ انہوں نے تیسری شادی اپنے ایک  وکیل ساتھی کے ساتھ کی۔ ’ان سے میری چھ سال کی ایک بیٹی ہے اور ان کے خلاف بھی میں نے تنسیخ نکاح کا دعوی دائر کیا ہوا ہے کیونکہ میرے مخالفین میرے شوہر کی پہلی بیوی کے رشتہ دار ہیں اور میرے پہلے اغوا میں انہوں نے میرے مخالفین کو تعاون فراہم کیا تھا۔'

ارشاد کا کہنا تھا کہ ’میری صحت تھوڑی بہتر ہو تو میں حقائق پولیس اور میڈیا کے سامنے رکھوں گی اور چاہوں گی کہ مجھے انصاف ملے۔‘

ارشاد نسرین کی وائرل ویڈیو نے سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی جس پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے بھی اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ ارشاد کو انصاف ملنا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپنڈنٹ اردو نے ایڈووکیٹ ارشاد نسرین کے مبینہ اغوا کے سلسلے میں متعلقہ تھانہ سٹی دیپال پور رابطہ کیا جہاں کے انسپیکٹر قلب سجاد نے بتایا کہ اس اغوا کے کیس میں کچھ مسئلے مسائل ہیں۔ ابھی تک انہوں نے پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ نہیں کروایا مگر جب وہ بیان ریکارڈ کروائیں گی ہم اس کیس کی تفتیش پوری ایمان داری کے ساتھ کریں گے۔ البتہ ان کا میڈیکل ٹیسٹ کروا لیا گیا ہے جس کی رپورٹ آنا ابھی باقی ہے۔'

ارشاد نسرین کے کیس میں کیا پیچیدگیاں ہیں یہی جاننے کے لیے ہم نے  ضلع اوکاڑہ کے ایک سینئیر پولیس افسر سے رابطہ کیا جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'ارشاد نسرین کا کیس کوئی عام کیس نہیں ہے اور یہ مبینہ طور پر جھوٹے پرچے کروانے کی ہسٹری رکھتی ہیں۔ ان کی جائیداد کے مختلف تنازعات چل رہے ہیں، جبکہ ان کی ریکارڈ پر تین، چار شادیاں بھی موجود ہیں۔ یہ اس سے پہلے بھی اغوا ہوتی رہی ہیں جس کے بعد پھر یہ واپس آجاتی ہیں اور  ان کے مخالفین کے خلاف پرچے ہو جاتے ہیں جن میں سے کچھ کی ضمانتیں ہو جاتی ہیں اور کچھ بے گناہ بری ہو جاتے ہیں۔

اس پولیس افسر کے مطابق 'ارشاد نسرین کا نام 15 مختلف مقدمات ہیں درج ہیں جن میں سے کچھ میں یہ خود مدعی ہیں کچھ میں ملزمہ اور کسی میں یہ گواہ ہیں۔

جب انڈپنڈنٹ اردو نے ارشاد نسرین سے پولیس کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے یہ سارے الزامات مسترد کر دیے اور کہا کہ وقت آنے پر وہ تمام حقائق کسی ایسے فورم پر بیان کریں گی جہاں سے انہیں انصاف کی امید ہو۔

 دوسری جانب پنجاب بار کونسل نے گذشتہ روز اگست کے مہینے میں سات وکلا کے قتل، اغوا اور قاتلانہ حملوں کے متعدد واقعات کے خلاف پنجاب بھر کی عدالتوں میں ہڑتال کی کال دی تھی۔

اس واقعے کا وزیر اعظم عمران خان نے بھی نوٹس لیا تھا اور پولیس کو انہیں تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین