پاکستان کی وزارت داخلہ نے ایک ہی ماہ کے دوران دو مزید جماعتوں کو کالعدم قرار دیا ہے جس کے بعد ان کی کل تعداد 78 تک پہنچ گئی ہے۔ رواں سال پابندی کی فہرست میں پانچ تنظیموں کے نام شامل کیے گئے۔
وزارت داخلہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 11(بی) 1 بی اور سی کے تحت 19 اگست کو خاتم الانبیا نامی تنظیم اور 25 اگست کو سیکشن 11 (اے) 1 بی کے تحت غازی فورس پر پابندی عائد کردی۔
خاتم الانبیا نامی تنظیم کا تعلق کالعدم شیعہ عسکریت پسند گروپ انصار الحسین سے بتایا جارہا ہے جب کہ غازی فورس 2007 میں لال مسجد کے محاصرے کے بعد قائم ہونے والی ایک پاکستانی عسکریت پسند تنظیم ہے جس کی بنیاد لال مسجد کے سابقہ طالب علم مولانا نیاز رحیم کے جانب سے رکھی گئی۔
اس تنظیم کا نام مولانا عبدالرشید غازی کے نام پر رکھا گیا جن کی ہلاکت لال مسجد آپریشن کے دوران ہوئی۔
خاتم الانبیا تنظیم کے حوالے سے لوگوں کے پاس زیادہ معلومات نہیں: تجزیہ نگار
تجزیہ نگار عامر رانا کے مطابق عسکریت پسند تنظیم خاتم الانبیا کا نام پہلی بار منظر عام پر آیا ہے جب کہ قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس کا تعلق ایک اور کالعدم جماعت انصارالحسین سے ہے۔ نیز ان شکوک کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ یہی جماعت انصارالحسین پابندی کے بعد دوسرے نام سے سامنے آئی ہے۔ امکانات یہ ہیں کہ اس کا تعلق بھی پاکستان میں جنگجوؤں کی بھرتیوں کے حوالے سے ہوسکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'عسکریت پسند جماعتوں کی جانب سے، چاہے وہ تحریک لبیک یا لشکر جھنگوی کی طرح سنی جماعتیں ہوں یا زینبیون بریگیڈ اور انصارالحسین کی طرح شیعہ جماعتیں، ان کی جانب سے پاکستان میں جنگجوؤں کی بھرتیوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے افغانستان سے قریب سرحدی علاقوں میں دہشتگردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔'
خاتم الانبیا تنظیم کیا ہے اور اسے کیوں کالعدم قرار دیا گیا؟
وفاقی حکومت نے 19 اگست 2020 کو خاتم الانبیا نامی جماعت پر پابندی عائد کی تھی۔
قومی ادارہ برائے انسداد دہشتگردی (نیکٹا) کے سابق چیف احسان غنی نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ یہ جماعت شیعہ عسکریت پسند گروپ انصار الحسین کے ماتحت ہے، جسے وزارت داخلہ کی جانب سے 30 دسمبر 2019 کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
انصار الحسین کی خیبر پختونخوا کے ضلع کرم اور سندھ کے شہر کراچی میں نمایاں موجودگی ہے۔ یہ کالعدم تنظیم مبینہ طور پر کرم، اورکزئی اور خیبر پختوںخوا کے دیگر علاقوں سے جنگجوؤں کی بھرتی میں ملوث رہی ہے جنہیں داعش کے خلاف جنگ کے لیے شام بھیجا جاتا تھا۔
ماضی میں ایران کے اسلامی انقلابی گارڈ کارپس (IRGC) کے زینبیون بریگیڈ نے کئی پاکستانی جنگجوؤں کو بھرتی کیا ہے۔
اس کے علاوہ انصار الحسین کرم میں ایک فلاحی تنظیم کے طور پر بھی کام کرتی رہی ہے جو محرم کے مہینے میں اجتماع و جلوس کی حفاظت کے لیے نوجوان رضاکار بھی فراہم کرتی تھی۔
نیکٹا کے سابق چیف کے مطابق انصار الحسین کے ماتحت جماعت خاتم النبیا کو ضلع کرم میں ہونے والے حالیہ دھماکے اور دہشت گرد سرگرمیوں کے باعث کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ 23 جولائی 2020 کو ضلع کرم کے مرکزی شہر پاڑاچنار کے طوری بازار میں دھماکہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں 20 افراد زخمی ہوئے تھے۔
کالعدم تنظیمیں دوبارہ کیسے فعال ہوتی ہیں؟
اب تک پاکستان میں کالعدم تنظیموں کی تعداد 78 ہوچکی ہے۔ رواں سال سات مئی کو جیے سندھ قومی محاذ کے ایک گروپ سمیت سندھو دیش انقلاب آرمی اور سندھو دیش لبریشن آرمی پر وزارت داخلہ کی جانب سے پابندی عائد کی گئی تھی جس کے بعد ان کا نام نیکٹا کی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کردیا گیا تھا۔
لیکن ہر بار کالعدم تنظیموں پر پابندی عائد ہونے کے باوجود وہ پھر سے کسی اور نام یا پہچان کے ساتھ فعال ہوجاتی ہیں اور چھوٹے یا بڑے پیمانے پر ان کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے کالعدم تنظیموں پر عائد ہونے والی پابندی کا مقصد کیا ہے؟
یہ جماعتیں دوسرے ناموں سے کیوں اور کیسے واپس آجاتی ہیں؟ اور اسے روکنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حوالے سے قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی کے سابق چیف نے ہمیں عسکریت پسند جماعتوں کو کالعدم قرار دینے کے موجودہ عمل اور نیکٹا کے قوانین میں کالعدم تنظیموں کے حوالے سے چند کمزوریوں کی سمجھنے میں مدد کی۔
ان کے مطابق کالعدم تنظیمیں خاتم الانبیا اور انصارالحیسن بھی ایک تسلسل کا حصہ ہیں۔
ایسی تنظیموں کی جانب سے جب دہشت گرد سرگرمیاں سامنے آتی ہیں تو حکومت ان کا نوٹس لیتے ہوئے ان پر پابندی عائد کردیتی ہے جس کے تحت ان تنظیموں پر نہ صرف سفری پابندی عائد ہوجاتی ہے بلکہ ان کے بینک اکاؤنٹس بھی منجمد کردیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ کئی سالوں سے یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ پاکستان میں ایسی جماعتیں فرنٹ پر فلاحی تنظیموں کے طور پر کام کرتی ہے اور پیچھے دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہوتی ہیں۔
بیرونی ممالک سے جب ان کے پاس فنڈنگ آتی ہے تو یہ جماعتیں دکھاوے کے لیے کئی فلاحی کام کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ خود کو مضبوط بھی کرتی رہتی ہیں۔
دہشت گرد سرگرمیوں کے باعث جب یہ تنظیمیں سکیورٹی اداروں کے ریڈار پر آتی ہیں تو ان پر پابندی عائد ہوجاتی ہے۔ مگر پابندی کے کچھ وقت بعد ہی یہی جماعتیں کسی اور نام سے لانچ ہوجاتی ہیں اور ان کے جاں نثار کارکنان ایک بار پھر منتظم ہوکر ملک مخالف سرگرمیاں شروع کردیتے ہیں۔ اس لیے یہ ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔
نیکٹا کے سابق چیف احسان غنی کا کہنا تھا کہ 'اس تسلسل کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے اداروں کی جانب سے شیڈول چار کے تحت صرف جماعتوں پر پابندی عائد کی جاتی ہے جبکہ اصل پابندی اس جماعت کے قائدین اور کارکنان پر لگنی چاہیے۔'
ان کے مطابق 'اس کا حل یہ ہے کہ شیڈول دو کے تحت عسکریت پسند افراد پر پابندی عائد کی جائے کیوں کہ یہی لوگ دوسرے نام سے اپنی جماعت کو لانچ کرتے ہیں۔ '
'قوانین کے تحت جب ان پر پابندی عائد ہوگی تو انہیں اپنے علاقے سے باہر سفر کرنے سے پہلے متعلقہ ایس ایچ او کی اجازت درکار ہوتی ہے، ان پر سکول کالج، پارک، بس اڈے اور دیگر عوامی آمدورفت کی جگہوں پر جانے کی پابندی ہوتی ہے، وہ بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکتے۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی پابندیاں عائد ہوجاتی ہیں جس سے ایک عسکریت پسند شخص کو کافی حد تک پابند کیا جاسکا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے کالعدم تنطیمیں نہ کبھی رکتی ہیں اور نہ ہی ان کی تعداد کبھی کم ہوتی ہے۔'