کالعدم تحریک طالبان کے نئے سربراہ مولانا ولی عمری کون ہیں؟

مولانا ولی کو امیر چننے کا بیان بدھ کے روز افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ہونے والے ریموٹ کنٹرول حملے کے نتیجے  میں شہریار محسود کی ہلاکت کے تصدیقی بیان کے کچھ گھنٹوں بعد جاری کیا گیا۔

طالبان ذرائع کے مطابق مولانا عمری حافظ قرآن ہیں اور انہوں نے طالبان کو ابتدائی ایام میں جوائن کیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (حکیم اللہ محسود گروپ) کے اہم کمانڈر شہریار محسود کی افغانستان میں ہلاکت کے بعد مولانا ولی محمد عرف عمری کو گروپ کا نیا سربراہ مقرر کردیا گیا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان حکیم اللہ محسود گروپ کے نئے منتخب امیر مولانا ولی محمد عرف عمری ٹی ٹی پی خود کش بمبار ونگ کے سابق امیر رہ چکے ہیں۔

مولانا ولی محمد عرف عمری کا تعلق جنوبی وزیرستان کی تحصیل سرویکئی کے علاقے ’آزمارئے‘ سے ہے اور محسود قبیلے کی ذیلی شاخ وزیرگائی سے تعلق رکھتے ہیں۔ 

طالبان ذرائع کے مطابق مولانا عمری حافظ قرآن ہیں اور انہوں نے طالبان کو ابتدائی ایام میں جوائن کیا۔ 

صحافی گوہر محسود اور زہرا کاظمی کے مطابق طالبان ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ مولانا ولی محمد عرف عمری بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اور مولانا ولی الرحمن کے قریبی ساتھی رہے ہیں اور ان کے ساتھ پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

طالبان ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ مولانا ولی محمد طالبان کے ان کمانڈرز میں سے ہیں جو طالبان کے مختلف دھڑوں کو یکجا کرنے کے خواہش مند ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان حکیم اللہ گروپ کے ترجمان نصرت اللہ نصرت کے جاری کردہ بیان کے مطابق تمام ساتھیوں کے مشورے کے بعد مولانا ولی محمد کو نیا امیر چن لیا گیا ہے۔

مولانا ولی کو امیر چننے کا بیان بدھ کے روز افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ہونے والے ریموٹ کنٹرول حملے کے نتیجے  میں شہریار محسود کی ہلاکت کے تصدیقی بیان کے کچھ گھنٹوں بعد جاری کیا۔

حکیم اللہ محسود اور خان سعید سجنا کے درمیان اختلافات کے وقت ولی محمد  تحریک طالبان پاکستان حکیم اللہ گروپ میں شامل ہو گئے تھے۔
مولانا ولی محمد عرف عمری شادی شدہ ہیں۔ ان کی ایک بیوی اور چار بچے ہیں۔ عمری  کی ایک بیٹی آپریشن راہ ضرب عضب کے دوران میرانشاہ میں جیٹ طیاروں کی بمباری سے ہلاک ہو چکی ہیں۔

یاد رہے کہ شہریار محسود کی ہلاکت کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جارہا ہے، جو پہلے ہی مختلف دھڑوں میں تقسیم ہے۔

شہریار محسود کا گروہ ٹی ٹی پی میں دوسرے نمبر پر بڑا گروپ شمار کیا جاتا ہے، جس کی خان سعید سجنا گروپ کے ساتھ متعدد جھڑپیں ہوچکی ہیں، جن کے دوران سجنا گروپ کے مقابلے میں شہریار گروپ کے زیادہ ساتھی ہلاک ہوئے۔

دونوں گروپوں کے درمیان اختلافات 2013 میں امریکی میزائل حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سامنے آنا شروع ہوئے تھے۔ خان سید  سجنا ٹی ٹی پی کی سربراہی کے مضبوط امید وار بن کر ابھرے تھے، تاہم حکیم اللہ دھڑے کے ٹاپ کمانڈر شہریار محسود نے باجوڑ، مالاکنڈ اور مہمند کے غیر محسود دھڑوں کے ساتھ مل کر ان کی مخالفت کی۔

شہریار محسود حکیم اللہ محسود کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے اور ان کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی کی کمان سنبھالنا چاہتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب دونوں گروپ ایک دوسرے کے علاقے میں مداخلت کرنے کے الزامات کے تحت بھی ایک دوسرے پر حملے کرتے رہے۔

اپریل 2014 میں افغان طالبان کے اس وقت کے سربراہ ملا عمر کے لیٹر ہیڈ پر پشتو زبان میں پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں پمفلٹس تقیسم کیے گئے تھے، جس میں طالبان گروہوں کے درمیان تنازع کو حل کرنے کے لیے مقامی قبائلیوں سے اپیل کی گئی تھی۔

بعدازاں مئی 2014 میں خان سعید سجنا گروپ نے تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔

ایک طالبان کمانڈر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہریار گروپ کی جانب سے خان سعید سجنا گروپ (موجودہ مفتی نور ولی گروپ) پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کا جھکاؤ پاکستانی سکیورٹی ایجنسیز کی جانب ہے اور وہ پاکستان کے خلاف کارروائیوں سے گریز کرتے آئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق شہریار محسود کے ساتھیوں کے جماعت الاحرار کی قیادت سے بھی قریبی روابط ہیں جبکہ شہریار گروپ افغانستان کی بجائے پاکستان کے خلاف کارروائیوں کو ترجیح دیتا ہے۔

طالبان ذرائع کے مطابق شہریار محسود اور ان کے گروپ کے ارکان میں سے زیادہ تر کا تعلق القاعدہ اور ازبک جنگجوؤں کے ساتھ رہا ہے۔

جبکہ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہریار محسود گروپ کے متعدد ارکان افغانستان میں داعش میں بھی شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان