کبھی سکول گئے نہیں پھر بھی چیمپیئن

کراچی کے دو ایسے بچے جو پاکستان سمیت مختلف ممالک کے کئی سائنسی مقابلوں میں نہ صرف حصہ لے کر پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں بلکہ جیت بھی چکے ہیں لیکن وہ سکول کبھی نہیں گئے۔

کراچی کے 11 سالہ محمد  ہاشم سید اور ان کی سات سالہ بہن نسیبۃ نور سید، سائنس، سپیس اور روبوٹس کے شوقین ہیں۔

دونوں بچے پاکستان سمیت مختلف ممالک میں کئی مقابلوں میں نہ صرف حصہ لے کر پاکستان کی نمائندگی کر چکے  ہیں بلکہ پہلی اور دوسری پوزیشن بھی لیتے رہے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں بچے کبھی سکول نہیں گئے۔ 

ہاشم کی والدہ عروج سیمی پیشے کے اعتبار سے کمپیوٹر انجینئر ہیں جبکہ پڑھانا ان کا شوق ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہ اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کی بجائے انہیں اپنے ان کی مرضی کے نصاب کے مطابق پڑھاتی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عروج کا کہنا تھا  'میں چاہتی تھی کہ میرے بچے اپنے جنون کی پیروی کریں اورمیں ان کے شوق کی پیروی کروں، میں انہیں ایسے سسٹم میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی جہاں ایک فیکٹری کی طرح ایک جیسی مصنوعات تھوک کے حساب سے بنتی ہیں۔' 

عروج کاکہنا ہے 'چونکہ میرے بچے گھر پر ہی تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو ان کی سکول فیس، وین کا خرچہ، یونیفارم اور دیگر اخراجات کے جو پیسے بچتے ہیں میں انہیں اپنے بچوں کو مختلف تعلیمی مقابلوں میں حصہ لینے پر خرچ کرتی ہوں۔ '

عروج نے بتایا کہ اکٹر لوگ ان سے پوچھتے ہین کہ ان کے بچے تو سماجی طور پر بہت محدود ہو گئے ہوں گے۔'

میرا خیال ہے کہ میرے بچے سماجی طور پر ان بچوں سے جو سکول جاتے ہیں اور ایک ہی عمر کے لوگوں سے ملتے ہیں ان سے کہیں زیادہ متحرک ہیں کیونکہ وہ مختلف ملکوں میں جاتے ہیں، مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں، چھوٹے بڑے سبھی عمر کے لوگوں سے ملتے چلتے اور بات چیت کرتے ہیں۔'

میرا انہیں اس طرح مقابلوں میں بھیجنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ دنیا گھومیں، لوگوں سے ملیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ دنیا میں ان سے مختلف لوگ بھی رہتے ہیں اور اس طرح ان میں رواداری کا جذبہ بھی پیدا  ہو۔'

عروج کے بچے خاص طور  پر ہاشم اب تک دو مرتبہ قطر میں ہونے والے ڈیسٹی نیشن امیجی نیشن (ڈی آئی) کے مقابلے، دو مرتبہ دبئی میں ہونے والے ڈی آئی اور ونڈر روبوٹس، امریکہ میں دو مرتبہ ڈی آئی کے گلوبل فائنل، امریکہ میں ہی دو مرتبہ انٹرنیشنل سٹیم سپیس کے مقابلوں کے علاوہ بیشتر میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ 

عروج کہتی ہیں کہ عموما سکول کی بجائے گھر پرتعلیم والے بچوں کے بارے میں لوگ خیال کرتے ہین کہ وہ بہت امیر ہوتے ہیں یا صرف امرا کا طبقہ ہی بچوں کی ہوم سکولنگ کر سکتا ہے مگر یہ تاثر غلط ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کے پاس وقت کتنا ہے اور آپ اپنے بچے کے لیے کس طرح نصاب ترتیب دیتے ہیں جس میں وہ خوشی سے اپنے شوق کے مطابق سیکھتا چلا جائے۔'

عروج کا کہنا ہے کہ ایک اور سوال بھی لوگ ان سے پوچھتے ہیں کہ جو بچے گھروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ آگے جا کر ڈگری کیسے حاصل کریں گے؟  

'ویسے میں  تو ڈگری وغیرہ کو نہیں مانتی لیکن اب اس جدید دور میں ڈسٹینٹ لرننگ، آن لائن کلاسز سب موجود ہیں آپ آن لائن کسی بھی یونیورسٹی میں داخلہ لے سکتے ہیں  بلکہ آن لائن ہوم سکولرز کے لیے بھی  سہولیات میسر ہیں۔ آپ کوئی بھی سرٹیفیکیٹ یا ڈگری لے سکتے ہیں۔ میں خود پہت سے ہوم سکولر ز کو جانتی ہوں جنہوں نے او لیول کیا، اے لیول کیا اور یونیورسٹیوں میں بھی گئے۔

'اس کے علاوہ اب تو پاکستان کے اندر بہت سے تعلیمی ادارے ہیں جو ہوم سکولر بچوں کو پوری سہولت فراہم کرتے ہیں کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ بچے روایتی طریقوں سے ہٹ کر اپنی معلومات اور علم میں اضافہ کرتے ہیں اور انہیں داخلہ دیا جائے گا تو یہ اچھا رزلٹ ہی لے کر آئیں گے۔' 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل