چوہے کے تکے شوق نہیں مجبوری

جنوبی افریقی ملک ملاوی میں چوہے کے تکے ایک مشہور ڈش ہے، لیکن کرونا وائرس کے باعث بہت سے لوگوں کو کھانے کے لیے صرف چوہے کا گوشت ہی دستیاب ہے۔

چوہے کے تکے جنوبی افریقی ملک ملاوی کی ایک مشہور ڈش ہے، لیکن کرونا (کورونا) وائرس کے باعث بہت سے لوگوں کو کھانے کے لیے صرف چوہے کا گوشت ہی دستیاب ہے۔

ملاوی میں عام طور پر دکاندار چوہے کا گوشت معاشی مرکز بلانترے اور دارالحکومت لیلونگوے کے درمیان واقع مصروف شاہراہ پر فروخت کرتے ہیں۔

برنارڈ سیمون چوہوں کے شکاری ہیں اور کرونا کی وبا کے دوران ان کے کاروبار کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

انہوں نے خبر رساں ادارے  اے ایف پی کو بتایا: 'جب سے کرونا آیا ہے زندگی مشکل ہوگئی ہے۔ روزگار کے لیے ہم چوہوں کا شکار اور بیوپار کرتے ہیں۔'

روایتی طور پر دیہاتوں میں بچے چوہوں کا شکار کرتے ہیں۔ چوہوں کے بلوں کو دھویں سے بھر کر انہیں باہر نکالا جاتا ہے اور پھر پکڑ کر پکایا جاتا ہے، جس کے بعد انہیں نمک لگا کر خشک کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ ملاوی باشندے شوق سے چوہے کا گوشت کھاتے ہیں لیکن سیمون کے خاندان کو صرف چوہے کا گوشت ہی دستیاب ہے۔

چوہے کا گوشت غیر محفوظ محسوس ہو سکتا ہے لیکن مقامی محکمہ صحت کے حکام چوہے کا گوشت کھانے سے منع نہیں کرتے۔

ملاوی کے وزارت صحت کے عہدیدار سِلویسٹر کاتومبا نے اے ایف پی کو بتایا: 'اگر لوگ چوہے کھاتے ہیں تو وہ پروٹین کا ذریعہ بنتے ہیں، اس لیے آپ کچھ بھی کھانے میں آزاد ہیں جب تک کہ پروٹین کی حسبِ ضرورت مقدار پوری ہوتی رہے۔'

 50 فیصد سے زائد ملاوی باشندے وبا سے پہلے بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ اس ملک میں اب تک سرکاری طور پر چھ ہزار کرونا کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے اور یہاں کی معیشت اور لوگوں کی زندگی اس وبا سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

وبا کے خاتمے کے بعد بھی چوہے کا گوشت یہاں خوراک حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ رہے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا