زندہ مرغی گوشت بننے تک اذیت ناک مراحل سے گزرتی ہے

مرغیوں کو تیزی سے بڑا کرنے کے لیے انہیں مخصوص خوراک دی جاتی ہے جس کے بعد وہ اکثر لنگڑی ہو جاتی ہیں اور انہیں دل کی تکلیف اور جلد کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

1950 میں مرغی کا وزن ڈیڑھ کلو تک بڑھنے میں 120 دن لگتے تھے اب 30 دن لگتے ہیں۔(ہیومین لیگ)

برطانیہ کی بڑی بڑی مارکیٹوں کو مرغی کا گوشت فراہم کرنے والے فارموں کی خفیہ طور پر بنائی گئی ویڈیو سے انکشاف ہؤا ہے کہ زندہ مرغیوں کو گوشت میں تبدیل ہونے سے پہلے اذیت ناک مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

ذبح ہونے سے ٹھیک پہلے بنائی گئی ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ ٹانگیں سکڑ جانے کی وجہ سے مرغیوں کو چلنے میں مشکل ہوتی ہے اور جب وہ بے بسی کے عالم میں اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی ہیں تو اپنے ہی بوجھ کی وجہ سے زمین پر گر جاتی ہیں۔

مرغیوں کو تیزی سے بڑا کرنے کے لیے انہیں مخصوص خوراک دی جاتی ہے جس کے بعد وہ اکثر لنگڑی ہو جاتی ہیں اور انہیں دل کی تکلیف اور جلد کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کچھ ویڈیو کلپس میں دیکھا گیا ہے کہ فارموں کے اندر موجود مرغیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں جس سے ان کے حرکت کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں بچتی۔ کچھ مرغیاں دیوار کے ساتھ دبی ہوتی ہیں جبکہ دوسری بظاہر ایک دوسرے کے اوپر کھڑی ہوتی ہیں۔

فارموں میں موجود مرغیوں کو بہتر ماحول میں رکھنے کے لیے پردے میں رہ کر مہم چلانے والوں نے کہا ہے کہ انہیں مردہ مرغیوں یا دوسرے مردہ جانوروں سے بھرے ڈبے بھی ملے ہیں جو کئی گھنٹے فارموں میں پڑے رہتے ہیں بعض اوقات پوری رات وہیں رکھے رہتے ہیں۔

جن دو پولٹری فارموں میں مرغیوں کی ویڈیو بنائی گئی وہ برطانیہ کی دو بڑی کمپنیوں کی ملکیت ہیں۔ ڈیون کے علاقے میں واقع ایک پولٹری فارم’ہک ٹو سسٹرز‘ اور لنکن میں واقع فارم موئے پارک نامی کمپنی کا ہے۔ ان کمپنیوں کے گاہکوں میں ٹیسکو، آلڈی اور سینز بریز جیسی سپرمارکٹس شامل ہیں۔

جانوروں کی دیکھ بھال اور ان کی بہبود کے لیے کام کرنے والے پروفیسر اینڈریوے نائٹ نے کہا: ’ویڈیو کلپس میں دکھائے گئے مناظرسے بے انتہا تکلیف ظاہر ہوتی ہے۔‘ پروفیسر اینڈریو نائٹ یونیورسٹی آف ونچسٹر میں میں جانوروں کی فلاح سے متعلق مرکز کے بانی ڈائریکٹر بھی ہیں۔  

مرغیوں کا تعلق ایک خاص قسم کی نسل سے ہے جنہیں راس 308 اور راس 708 کہا جاتا ہے۔ ان مرغیوں کا تعلق تیزی سے بڑی ہونے والی عام نسل سے ہے۔ فارموں میں جانوروں کے بہتر ماحول کے لیے کام کرنے والی تنظیم اوپن کیجز کے مطابق یورپی یونین کے ممالک میں مرغی کے گوشت کا 70 فیصد اسی نسل کی مرغیوں کا ہے۔  

1950 میں مرغی کا وزن ڈیڑھ کلو تک بڑھنے میں 120 دن لگتے تھے اب 30 دن لگتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اوپن کیجز کے چیف ایگزیکٹو افسر کونر جیکسن نے کہا:’اگر انسان اتنی تیزی سے بڑے ہوں تو پانچ سال کے بچے کا وزن 150 کلو گرام ہوگا۔‘

یورپی کمیشن کی 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق مرغیوں کی ٹانگوں کی غیرمعمولی حالت، جلد کی بیماریاں اور کمزور ہڈیاں تیزی سے بڑی ہونے والی مرغیوں میں عام بات ہے۔ ان مرغیوں میں اچانک موت بھی عام ہے جس کی وجہ  یہ ہے کہ مرغیوں کو اتنی آکسیجن نہیں ملتی جتنی ان کے بڑے جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔

کونرجیکسن نے سپر مارکیٹوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے مرغی کے گوشت والے پیکٹ گمراہ کن ہیں جن پر پولٹری فارموں کی دلکش تصاویر بنی ہوتی ہیں اور مرغیوں کو آزادی سے گھومتا پھرتا دکھایا جاتا ہے۔

اینیمل جسٹس پراجیکٹ کی بانی کلئر پالمر نے کہا:’ہمارے کمیروں نے نام نہاد اعلیٰ دیکھ بھال کے دعوے کرنے والے پولٹری فارموں میں مرغیوں کی حالت زار کر کھول کر رکھ دیا ہے۔ فارموں میں جگہ تنگ اور ماحول اذیت ناک ہے۔ مرغیاں برے سلوک اور جسمانی بگاڑ کا شکار ہیں۔‘

’آہستہ آہستہ بڑے ہونے والے کئی چوزے کبھی باہر کی دنیا دیکھتے تک نہیں۔ جس بڑے پیمانے پر اس وقت پولٹری فارمنگ ہو رہی ہے اسے بہتر کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔‘

مرغی کا گوشت فراہم کرنے والی کمپنی ہک ٹو سسٹرزکے ترجمان نے کہا:’سوان ہام کے پولٹری فارم میں بنائی گئی دو منٹ کی فوٹیج کے حوالے سے جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ درست نہیں۔ زمینی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے  اور حقائق کو نظرانداز کر دیا گیا۔‘

ان کے مطابق ’یکم مارچ 2019 کو جانوروں کے ڈاکٹر وں نے قواعد کے مطابق سہولتوں کا جائزہ لینے کے لیے سوان ہام پولٹری فارم کا دورہ کیا۔ چار مارچ، منگل کو خوراک کے معیار سے متعلق ادارے ریڈ ٹریکٹرز کے آڈیٹروں نے بھی فارم کا دورہ کیا۔ دور ہ کرنے والی دونوں ٹیموں نے مرغیوں کی دیکھ بھال میں کسی مسئلے کی نشاندہی نہیں کی۔‘

’مرغیوں کی دیکھ بھال ہمارے فارموں کی اولین ترجیح ہے اور یہ ایسا عمل ہے جسے انتہائی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔‘

’ہمارے پولٹری فارموں پر کام کا انداز مختلف اور کئی برس سے ہو رہا ہے۔ ہم مرغیوں کی صحت اور دیکھ بھال کے طریقہ کارکے جائزے، اس کے انتظام اور بہتری کے لیے ایک مربوط نظام قائم کر رکھا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ نتائج خود بولتے ہیں۔‘

 

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی صحت