جبری رخصت، کٹوتیوں کے دور میں ایک سندھی اخبار کا اجرا حیران کن؟ 

'سندھی زبان کے پہلے مکمل ڈیجیٹل اخبار' کے دعوے کے ساتھ، دس صفحات پر مشتمل یہ رنگین اخبار کراچی سے شائع کیا گیا ہے۔

'سندھی زبان کے پہلے مکمل ڈیجیٹل اخبار' کے دعوے کے ساتھ، دس صفحات پر مشتمل یہ رنگین اخبار  کراچی سے شائع کیا گیا ہے۔تصویر: انڈپینڈنٹ اردو

پاکستان کے ذرائع ابلاغ سے حالیہ چند مہینوں کے دوران متعدد صحافیوں اور تکنیکی عملے کو معاشی بحران کا جواز بتا کر نوکری سے فارغ کیا جاچکا ہے جبکہ کئی اخبارات اور نجی ٹیلی ویژن چینلز نے ملازمین کی تنخواہوں میں کمی بھی کی، مگر اس بحران کے دور میں بھی پیر کے روز علاقائی زبان ’سندھی‘ میں ایک نئے اخبار کا اجرا ہوا۔

سندھی ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے گروپ سمجھے جانے والے، کاوش گروپ کے سابق سربراہ علی قاضی کی ادارت میں شروع ہونے والا اخبار 'پنھنجی اخبار' (اپنا اخبار) گذشتہ روز مارکیٹ میں متعارف کروایا گیا۔

کاوش گروپ کے تحت سندھی زبان کے دو ٹی وی چینل ’کی ٹی این نیوز‘ اور ’کشش ٹی وی‘ اور تین اخبارات ’کاوش، کوشش اور شام‘ نکلتے ہیں۔

حال ہی میں علی قاضی نے کاوش گروپ سے علیحدگی اختیار کی اور اب وہ اپنے نئے اخبار کے ساتھ مارکیٹ میں آئے ہیں۔

'سندھی زبان کے پہلے مکمل ڈیجیٹل اخبار' کے دعوے کے ساتھ، دس صفحات پر مشتعمل یہ رنگین اخبار  کراچی سے شائع کیا گیا ہے، جبکہ سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں تک اس کی کاپیاں بھیجی گئی ہیں۔

پاکستان میں اردو اور انگریزی زبان کے اخبارات، جریدے اور ٹی وی چینلز قومی سطح کے ذرائع ابلاغ سمجھے جاتے ہیں مگر حالیہ دنوں میں ان اخبارات اور ٹی وی چینلز سے بڑی تعداد میں ملازمین کو برطرف کردیا گیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران کے مطابق صرف کراچی شہر سے 18 سے 21 سو صحافیوں اور تکنیکی عملے کے افراد کو برطرف کیا گیا ہے۔

امتیاز فاران نے انڈپینڈنٹ اردو سے بذریعہ ٹیلیفون گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مالکان نے معاشی بحران کا بہانہ بنا کر برطرفیوں کے ساتھ ساتھ تنخواہوں میں کٹوتیاں بھی کی ہیں۔ ایک بھی ایسا ادارہ نہیں، جس نے صحافیوں یا عملے کے دیگر افراد کو فارغ نہ کیا ہو۔ جیو ٹی وی، جنگ گروپ، بول اور ایکسپریس گروپ نے سب سے زیادہ چھانٹیاں کی ہیں۔ تاریخ میں اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا۔ کچھ اخبارات جیسے نوائے وقت سے اتنے لوگ نکالے گئے ہیں کہ اب وہ اخبار سے ایک بیورو آفس بن کر رہ گیا ہے۔‘

ایسی صورتحال میں سوال یہ ہے کہ سندھی جیسی علاقائی زبان میں ایک نئے اخبار کا اجرا ہونا اور اس معاشی بحران کے دور میں اس کا اپنے پیروں پر کھڑا رہ سکنا ممکن ہوگا؟ جب میں نے یہ سوال چار دہائیوں سے سندھی صحافت سے وابستہ اور کئی سندھی اخبارات کی ادارت کرنے والے سینیئر صحافی  اور کالم نگار سہیل سانگی سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اردو اور انگریزی ذرائع ابلاغ کا دائرہ بڑے شہروں تک ہے۔ ان کے پڑھنے، دیکھنے اور سننے والوں کی اکثریت بھی شہروں میں ہے اور وہ اشتہارات بھی نجی شعبے سے لیتے ہیں۔ الیکشن کے دوران چھپنے والے اشتہارات پر سیاسی لوگوں کی تصاویر کی وجہ سے سپریم کورٹ کی جانب سے پابندی، پی ٹی آئی حکومت کا اشتہارات نہ دینے کا اعلان اور حالیہ معاشی بحران کے بعد نجی شعبے کی جانب سے اشتہارات کم کرنے کی صورت میں اردو اور انگریزی اخبارات اور ٹی وی چینلز میں بحران پیدا ہوا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’سندھی اخبارات کا اپنا ماڈل ہے، ان کا دائرہ بڑے شہروں میں کم اور چھوٹے شہروں اور دیہات میں زیادہ ہے جبکہ سندھی میڈیا کا ذریعہ معاش مقامی اشتہارات یا سندھ حکومت کے سرکاری اشتہارات پر ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پہلے سے ہی عملہ ضرورت سے کم ہے، جس کی وجہ سے خرچے کم ہیں، تو بحران کا اثر بھی ان پر کم ہوا ہے۔ سوائے ایکسپریس گروپ کے سندھی روزنامہ ’سندھ ایکسپریس’ کے، کسی سندھی اخبار یا ٹی وی چینل سے بڑے پیمانے پر چھانٹی یا کٹوتی نہیں ہوئی ہے۔‘

’پنھنجی اخبار‘ کے حوالے سے بات کرتے سہیل سانگی نے کہا کہ یہ اخبار بنیادی طور پر ڈیجیٹل اخبار ہے، مگر جدید دور کے باوجود سندھ کے اکثر شہروں میں ابھی تک ڈیجیٹل کا رجحان نہیں ہے، اس لیے پرچے کا اجرا کیا گیا ہے مگر مستقبل میں یہ ایک ڈیجیٹل اخبار ہی رہے گا۔  

انہوں نے مزید کہا: ’آج بھی اگر کوئی سندھی اخبار 15 ہزار  سے زائد سرکولیشن رکھتا ہو تو وہ اخبار اتنا کما سکتا ہے کہ بحران کے باوجود آسانی سے زندہ رہ سکے۔‘

پشتو، پنجابی، بلوچی، ہندکو اور شینا سمیت دیگر علاقائی زبانوں کے مقابلے میں سندھی زبان میں سب سے زیادہ اخبارات، ایف ایم ریڈیو اور ٹی وی چینلز ہیں۔ سندھ حکومت کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر اختر سرہیو کے مطابق سندھ سے جاری ہونے والی اخبارات کی تعداد بتانا ممکن نہیں کیونکہ سندھی اخبار نہ صرف کراچی بلکہ حیدرآباد، سکھر، نواب شاہ اور دیگر اضلاع سے بھی نکلتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق سندھی زبان میں 150 سے زائد اخبارات کے ڈیکلریشن جاری ہوچکے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت