بھارت کی جیلوں میں زیادہ قیدی مسلمان یا دلت کیوں ہیں؟

ماہرین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ کمیونٹیز معاشی طور پر پسماندہ ہیں اور اس وجہ سے وہ اپنے لیے مناسب ، معیاری اور بر وقت قانونی دفاع یا وکیل کا بندوبست نہیں کر پاتے ہیں۔

(فائل فوٹو: اے ایف پی)

بھارت میں جاری کی گئی حالیہ سرکاری رپورٹ کے مطابق وہاں کی جیلوں میں مسلم، دلت اور آدیواسی  (کمتر سمجھی جانے والی ذاتوں کے لوگ یا صدیوں سے بھارت میں رہنے والے مقامی قبائل) قیدیوں کی تعداد ملک میں ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ پائی جاتی ہے۔

حکومتی ادارہ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) کی طرف سے شائع کردہ سالانہ رپورٹ 'پرزن اسٹیٹکس آف انڈیا2019' میں درج اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ملک کی جیلوں  میں سزا یافتہ مسلم قیدیوں کی 16.6فیصد اور زیر سماعت قیدیوں کی تعداد 18.7فیصد ہے جبکہ ملک میں مسلمانوں کی تعداد کل آبادی ک14.2 فیصدہے۔

اسی طرح ملک میں دلتوں(شیڈیولڈ کاسٹ) کی آبادی مجموعی آبادی کا 16.6فیصد ہے لیکن جیلوں میں اس کمیونیٹی سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کا تناسب ،21.7 فیصد سزا یافتہ اور 21فیصد زیر سماعت ہے۔ملک میں آدیواسیوں (شیڈیولڈ ٹرائبس) کی تعداد 8.6فیصد ہے، وہیں جیل میں اس کمیونیٹی کے قیدیوں کی تعداد13.6 سزا یافتہ اور 10.5زیر سماعت ہے۔

غور طلب ہےکہ یہ کوئی نئی صورت حال نہیں ہے ۔ این سی آر بی کی  پرانی  رپورٹس کے مطالعے  سے بھی یہ بات سامنے نکل کر آتی ہے کہ ملک بھر کی جیلوں میں ان کمیونیٹیز کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب میں کہیں زیادہ  پائی جاتی تھی۔

سال 2018کی این سی آر بی رپورٹ کے مطابق،ملک کی جیلوں  میں نصف سے زیادہ  53.1قیدیوں کا تعلق مسلم، دلت اور آدیواسی کمیونیٹیز سے تھا، جو ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔

کیوں کہ تازہ ترین مردم شماری کے مطابق ملک میں ان کمیونیٹیز کی مجموعی آبادی کل آبادی  کے چالیس فیصد  سے بھی کم 39.4 فیصد ہے۔ ماہرین کا  خیال ہے کہ اس صورت حال کا ذمہ دار بنیادی طور پر پولیس محکمہ میں ان طبقات کے لیے پایا جانے والا تعصب ہے۔

’تعصب ہے بنیادی وجہ‘ 

اتر پردیش پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل ایس آر داراپوری نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ وہی صورت حال ہے جیسا کہ امریکہ میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہاں کی جیلوں میں سیاہ فاموں کی تعداد ان کی آبادی کے لحاظ سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ 'اس کی بنیادی وجہ پولیس فورس میں پایا جانے والا تعصب ہے۔' ان کا کہنا ہے کہ'میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ہماری پولیس فورس میں شامل ایک بڑی تعداد کمیونل اور کاسٹسٹ لوگوں پر مشتمل ہے، یہی سبب ہے کہ جب بھی کوئی جرم ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے مسلم، دلت اور آدیواسی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بناتے ہیں۔کیوں کہ ان کو لگتا ہے کہ ان طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد فطری طور پر مجرمانہ سرگرمیوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔'

دارا پوری اپنی اس دلیل کو مضبوطی فراہم کرنے کے لیے'اسٹیٹس آف پولیسنگ ان انڈیا' نامی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں ۔

سینٹر فار سٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس)، نئی دہلی  اور کامن کاز کی طرف سے پولیس کے متعلق  کیے جانے والے سالانہ سروے کی رپورٹ کے مطابق ہر دوسرے (یعنی پچاس فیصد) پولیس اہلکار کا خیال ہے کہ دوسروں کی نسبت ایک مسلمان کے فطری طور پر جرائم میں ملوث ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔

اسی  طرح دلتوں اور آدیواسیوں کے بارے میں بیس فیصد پولیس فورس کا خیال ہے کہ وہ دلت اور آدیواسی کمیونیٹی کے لیے بنائے گئے قوانین کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

واضح ہو کہ اس بار یہ رپورٹ ملک کی 21ریاستوں کے 11834پولیس اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کے بعد تیار کی گئی ۔

ایک دوسری رپورٹ میں بھی اس تعصب کا ذکر ملتا ہے۔ نیشنل دلت موومنٹ فار جسٹس (این ڈی ایم جے) کی ایک  سٹڈی رپورٹ'کریمنل جسٹس ان دی شیڈو آف کاسٹ' (2018)   کے مطابق  ملک کے کرمنل جسٹس سسٹم میں دلت اور آدیواسوں کے خلاف موجود ذہنیت کی وجہ سے جیلوں میں ان طبقات کے قیدیوں کی تعداد زیادہ پائی جاتی ہے۔

نیشنل  یونیورسٹی آف لا(نالسار)، حیدرآباد  میں سماجیات کی اسوسی ایٹ پروفیسر  اور'کافکالینڈ : پریجوڈس، لا اینڈ کاونٹر ٹیررزم  ان انڈیا' کی مصنفہ  منیشا سیٹھی  بھی ایس آر  دارا  پوری اور ان دونوں رپورٹس سے متفق ہوتے ہوئے اس صورت حال کے لیے تعصب کو سب سے بڑی وجہ قرار دیتی ہیں۔ انہوں نے  انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ'این سی آر بی کی رپورٹ دراصل اس بات پر مہر لگاتی ہے جس کی طرف ایک عرصے سے مختلف غیر سرکاری تنظیموں اور ریسرچرز کی طرف سے اشارہ کیا جاتا رہا ہے۔'

ان کا مزید کہنا ہے کہ پولیس فورس اور کرمنل جسٹس سسٹم میں مسلمانوں، دلتوں اور دیگر پسماندہ  طبقات و  مذہبی اقلیتوں کے خلاف تعصب کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم جو بات قابل تشویش ہے اور جس کی وجہ سے اس صورتحال میں بہتری نہیں آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔'

ان کا کہنا ہے کہ'جب تک اس تلخ حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جاتا صورت حال میں بہتری کے امکانات نہیں ہیں۔ کیوں کہ حقیقت کے اعتراف کے بعد ہی  اصلاح کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔'

ایک حالیہ واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ جب بھی ان طبقات کے تئیں پولیس کے تعصب کا معاملہ سامنے آتا ہے تو حکومت اور پولیس یہ کہنے لگتی ہے کہ یہ استثنا کا معاملہ ہے اس کو اصول نہیں سمجھنا چاہیے ۔لیکن حقیقت ہے کہ اس طرح کے معاملات اکثر سامنے آتے رہتے ہیں ۔ منیشا سیٹھی جس واقعے کی طرف اشارہ کر رہی تھیں وہ کچھ اس طرح ہے کہ اس سال مارچ کے مہینے میں ریاست مدھیہ پردیش کے بیتول ضلع میں مقامی پولیس نے دیپک بندیلے نامی ایک وکیل کو بےرحمی سے پیٹا تھا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ پولیس حکام  نے فورس کے دفاع میں یہ کہا کہ ان کی غلطی سے پٹائی ہو گئی کیونکہ پولیس اہلکاروں کو لگا تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔

تاحال پٹائی کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی خاص کاروائی نہیں ہوئی ہے۔ ایک پولیس اہلکار  کو اس معاملے میں معطل کیا گیا تھا، جسے دوبارہ  فورس میں شامل کر لیا گیا ہے ۔ کچھ اسی طرح کی خبریں دوسری ریاستوں سے بھی موصول ہوتی رہی ہیں۔

ایسے ہی معاملات کی شنوائی کرتے ہوئے جون کے مہینے میں تلنگانہ ہائی کورٹ (حیدرآباد)کے چیف جسٹس نے مقامی پولیس سے جواب طلب کیا تھا کہ ایسا کیوں ہے کہ زیادہ تر لوگ جن کے خلاف کاروائی ہوئی ہے ان کا تعلق مسلم کمیونیٹی سے ہے۔

’معاشی پسماندگی کی وجہ سے نہیں کر پاتے اپنا دفاع‘

یہ  پوچھے جانے پر کہ ان طبقات کی سماجی، معاشی و ثقافتی پسماندگی کا اس صورتحال سے کیا تعلق ہے؟ دونوں ماہرین کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ تینوں کمیونٹیز معاشی طور پر پسماندہ ہیں، اس کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیے مناسب ، معیاری اور بر وقت قانونی دفاع اور وکیل کا بندوبست نہیں کر پاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان طبقات کے قیدیوں کو یا تو برسوں تک زیرِ سماعت قیدی کے طور پر جیل میں رہنا پڑتا ہے یا پھر انہیں سزا ہو جاتی ہے۔

اس ضمن میں کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو ( سی ایچ آر ئی ) کے پریزن ریفارم ٹیم سے وابستہ وکیل سدھارتھ لامبا نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ'لیگل ایڈ تمام شہریوں کا بنیادی حق ہے لیکن ہماری تحقیق یہ  بتاتی ہے کہ تمام کوششوں کے باوجود ملک میں اب بھی معیاری قانونی مدد کا فقدان ہے۔'

 ان کا مزید کہنا ہے کہ' اگر معیاری قانونی مددفراہم کی جائے تو اس کا امکان ہے کہ اس صورتحال میں بہتری ہو۔'

وا ضح ہو کہ سی ایچ آر آئی  کی ایک اسٹڈی کے مطابق بھارت میں'مفت قانونی مدد' پر فی شخص محض 75پیسے خرچ کیے جاتے ہیں جو کہ ضرورت کے اعتبار سے بہت کم ہیں۔

ایس آر داراپوری کا کہنا ہے کہ'معیاری قانونی مدد کے علاوہ پولیس کو آزاد اور جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی عدلیہ کو بھی کسی کو جیل بھیجنے سے قبل ضروری پوچھ گچھ کرنے کی ضرورت ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ان کے مطابق'شروعات میں یہ پوچھ گچھ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے بے گناہ افراد کو جیل جانا پڑتا ہے۔ اور ایک بار جیل میں داخلہ کے بعد وہاں سے نکلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔'

  منیشا سیٹھی بھی مذکورہ بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ساتھ میں وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ'ان پولیس والوں کے خلاف سخت کارروائی بھی ہونی چاہیئے جو ان افراد کو فرضی مقدمات پھنسا کر جیل میں بھیج دیتے ہیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا پولیس اہلکار ایسا کرنے سے گریز نہیں کریں گے اور بے گناہوں کو سزا دینے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔'

 قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ پولیس اہلکار کو اس کی غلطی کی سزا ملے۔  اس کی وجہ  ایس آر داراپوری یہ بتاتے ہیں کہ'پولیس فورس میں ایک طرح کا بھائی چاراپایا جاتا ہے جس کے پیچھے دو بنیادی محرکات کار فرما ہوتے ہیں۔ پہلی، ان کو لگتا ہے کہ اگر اپنے بھائی بندھوکو سزا ملی تو فورس کا نام بدنام ہوگا۔ دوسر ی بات یہ کہ کیا پتہ کب میرا نمبر آ جائے۔'

ماہرین کا خیال ہے کہ پولیس کو جلد از جلد آزاد اور جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے  ہیں کہ اصولی طور پر تو پولیس کی جوابدہی  قانون  کے  سامنے ہے لیکن در حقیقت وہ سیاسی رہنماؤں اور اپنے تعصبات کے تابع ہے۔ اسی لیے ان کے'سیاسی آقا'  جیسا کہتے ہیں یا جیسی ان کی سیاست ہے پولیس والے بھی اکثر ویسا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جب تک یہ بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے تب تک حالات میں بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا