'وفاقی کابینہ کے 62 اجلاس لیکن صحافیوں کو خطرات پر کبھی بات نہیں'

ستمبر 2018 اور جنوری 2020 کے درمیان سات صحافیوں کا قتل، چھ کا اغوا، 15 کے خلاف مقدمات درج ہوئے لیکن وزیر اعظم لاعلم رہے: ایگزیکٹیو ڈائریکٹر فریڈم نیٹ ورک اقبال خٹک ۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا  کہنا ہے کہ صحافتی آزادیاں ان کی ترجیحات میں شامل ہیں (پی آئی ڈی)

پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں یکم ستمبر، 2018 سے لے کر 30 جنوری، 2020 تک منعقد ہونے والے وفاقی کابینہ کے 62 اجلاسوں میں کسی ایک میں بھی صحافیوں کے تحفظ کے مسئلے پر بات نہیں ہوئی۔

اسلام آباد میں موجود میڈیا کے ادارے فریڈم نیٹ ورک نے فروری 2020 میں آئین کے آرٹیکل 19-اے کے معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کے تحت معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ کابینہ نے کتنی مرتبہ صحافیوں کے تحفظ سے منسلک معاملات کو دیکھا۔

تنظیم کو حاصل معلومات کے مطابق وفاقی کابینہ کے 62 اجلاسوں میں صحافیوں کے تحفظ سے متعلق کبھی بھی غور و فکر نہیں کیا گیا جبکہ اس دوران سات صحافیوں کا قتل، چھ صحافیوں کو اغوا، 15 کے خلاف مقدمے درج ہوئے اور کل ملا کر 135 خلاف ورزیاں درج ہوئیں۔

کابینہ نے بلا آخر 26 اگست، 2020 کو اس بارے میں معلومات پیش کیں۔ اس سے قبل فریڈم نیٹ ورک نے وفاقی معلوماتی کمیشن  کے سیکشن 17 کے معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کے تحت کابینہ کے خلاف اپیل درج کروا دی تھی کیونکہ کابینہ نے مخصوص وقت کے اندر معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔

وفاقی معلوماتی کمیشن کے ذریعے کابینہ کے سیکشن افسر جمیل احمد نے بتایا کہ ’یکم ستمبر، 2018 سے لے کر 30 جنوری، 2020 تک منعقد ہونے والے کابینہ کے 62 اجلاسوں میں ایک دفعہ بھی صحافیوں کے تحفظ یا میڈیا کے خلاف پروپیگنڈا پر بات نہیں کی گئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے ایک بیان میں کہا ’یہ ایک درد ناک خبر ہے کہ سات صحافیوں کا قتل، چھ صحافیوں کے اغوا، 15 صحافیوں کے خلاف مقدمے درج ہونا اور کل ملا کر 135 کیس درج ہونے کے باوجود 62 اجلاسوں میں صحافیوں کے تحفظ سے متعلق بات نہیں کی گئی۔‘

اقبال خٹک نے کہا کہ ’وزیر اعظم ان واقعات سے واقف نہیں تھے اور افسوس کی بات ہے کہ اتنے واقعات ہو جانے کے باوجود حکومت صحافیوں کے تحفظ کے لیے کوئی بھی ایکشن نہیں لے سکی ہے اور صحافیوں کے خلاف جرائم کرنے والے قصور وار ابھی بھی آزاد پھر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب تک پاکستان صحافیوں کے حقوق اور انہیں تحفظ نہیں پہنچا سکتا اس وقت تک وہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف نمبر 10۔16 پر پورا نہیں اتر سکے گا، جو کہتا ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ’پاکستان کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایس جی ڈی نمبر 10۔16 پر پورا اترے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کو فوری طور پر صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ قصور واروں کو عدالت کے کٹہرے تک پہنچایا جا سکے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا تاہم کہنا ہے کہ صحافتی آزادیاں ان کی ترجیحات میں شامل ہیں اور صحافیوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے وہ پوری کوشش کر رہی ہے۔ 

اکتوبر 2013 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور حکومت میں وفاقی وزیر معلومات و نشریات پرویز رشید نے یو این کے صحافیوں کے تحفظ اور سکیورٹی کے ایکشن پلان پر عمل درآمد کا آغاز کیا تھا۔  

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان