کشمیر میں کرکٹ کا انوکھا انداز

شوپیان میں ایک بندوق بردار کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک کرکٹ میچ کا انتظام کرنے کی خبر آئی تو حکومت کے لیے یہ ’اداے قاتلانہ‘ خفت کا باعث تو تھی ہی مگر بعض عوامی حلقوں میں اس کی پذیرائی بھی ہوئی۔

پلیئر آف دا میچ کا انعام ایک مچھلی (سوشل میڈیا)

یہ عجیب و غریب منظر صرف بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہی دیکھا جاسکتا ہے جہاں دو مقامات پر ہمیشہ کافی بھیڑ رہتی ہے۔ ایک اگر کسی کی تدفین ہو رہی ہو خصوصاً اگر کسی بندوق بردار کی تدفین ہو یا اگر کرکٹ کا میچ کھیلا جا رہا ہو۔

آپ کو شاید یہ بھی معلوم ہوگا کہ وادی میں کون سے الفاظ زبان زد عام ہیں۔ جی ہاں آزادی یا کرکٹ۔

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

جس طرح بیشتر عوامی حلقوں میں جذبہ آزادی کا جنون کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اسی طرح کرکٹ کھیلنے کا ایسا چسکا ہے کہ وہ کہیں پر بھی بیٹ لے کر کھیلنے لگتے ہیں چاہے کرفیو ہو، پابندیاں ہوں، یا ہڑتال..... کرکٹ کے شیدائیوں کو کسی سے کوئی غرض نہیں۔ میدان ہو نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا، گلی، کوچہ یا گھر سب کرکٹ کے گراونڈ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

ایسا محال ہی کوئی محلہ، گلی یا علاقہ ہوگا جہاں بچوں یا نوجوانوں نے اپنی ٹیمیں نہ بنائی ہوں حالانکہ گذشتہ 30 برسوں سے پرتشدد حالات کی وجہ سے نہ تو انہیں کھیلنے کے مناسب مواقع ملے ہیں اور نہ اس جانب کسی حکومت نے توجہ ہی دی ہے۔

سرکاری حلقوں نے ہر کھیل، ہر مجمع یا ہر ہجوم کو ’امن عامہ‘ کے زمرے میں ڈال کر عوام کے لیے تفریح حاصل کرنے کے تمام راستے مسدود کر دیئے ہیں۔ بچے ایک سال سے زائد عرصے سے سکول نہیں گئے اور تعلیم کے عالمی اداروں نے اس پر افشا بھی نہیں کی مگر اس کا توڑ کرنے کے لیے جہاں کشمیری باورچی خانے سکول بن گئے ہیں وہیں مکانوں کی اوپر والی منزلیں جو شادی بیاہ کے لیے کھلی اور کشادہ رکھی جاتی ہیں آج کل کرکٹ کے گراونڈ بن چکے ہیں۔

گذشتہ برس پانچ اگست کے بعد بچے، نوجوان، بیمار اور بزرگ سخت بندشوں اور سکیورٹی پہروں کے اندر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ایسے میں جب حال ہی میں شوپیان میں ایک بندوق بردار کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک کرکٹ میچ کا انتظام کرنے کی خبر آئی تو حکومت کے لیے یہ ’اداے قاتلانہ‘ خفت کا باعث تو تھی ہی مگر بعض عوامی حلقوں میں اس کی پذیرائی بھی ہوئی اور بجائے ماتم کرنے کے نوجوان بندوق بردار کو جو جذبہ آزادی سے سرشار ہونے کے ساتھ ساتھ کرکٹ کا شیدائی تھا یاد کرنے کا ایک بہترین طریقہ تصور کیا گیا۔

بعد میں خبر پھیلتے ہی 20 سے زائد نوجوانوں پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی بلکہ بعض کے بارے میں اطلاع ملی کہ انہیں اس جرم کے پاداش میں ذدوکوب بھی کیا گیا۔

اس سے قبل بعض نوجوانوں نے پاکستانی کرکٹ ڈریس پہن کر ہزاروں شیدائیوں کو جمع کر کے جاوید میاں داد کے چھکے کی یاد تازہ کر دی تھیگ میچ ختم ہونے کے بعد علاقے میں سناٹا چھا گیا۔

برہان وانی کے علاقے ترال سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور ان کے ہم جماعت محمد عارف ( نام سکورٹی کی وجہ سے تبدیل کیا گیا ہے) کہتے ہیں کہ ’میں نے برہان کو کئی مرتبہ کرکٹ کھیلتے دیکھا ہے حالانکہ ان کے پیچھے سکیورٹی والے 24 گھنٹے تعاقب میں رہتے تھے۔ وہ اچانک نمودار ہو کر بیٹ سنبھالتے۔ ان کے چہرے پر خوف نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ ان کے دوسرے ساتھی تاک میں آس پاس کھڑے رہتے۔ علاقے کے نوجوان انتظار میں کرکٹ میدان میں موجود رہتے۔‘

بندشوں، ہراساں و پریشان کرنے کی مسلسل کارروائیوں کے باوجود اگر آپ کسی بھی علاقے میں جائیں گے تو نوجوانوں کو یا کرکٹ کھیلتے دیکھیں گے یا سرگوشیوں میں آزادی کے بارے میں بات کرتے سنیں گے۔

چند روز پہلے سرحدی ضلع کپواڑہ سے کرکٹ کی ایک اور دلچسپ خبر نے پھر اس کھیل کو اخبارات کی سرخیوں میں لایا۔ ٹیکی پورہ کی علاقائی ٹیموں کے درمیاں مقابلہ ختم ہوا تو مین آف دی میچ ایوارڈ دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ نوجوانوں نے قریب بہنے والے دریا سے مچھلی پکڑ لی جو پلیئر آف دی میچ، فرحت خان کو دی گئی جس کی فوٹو کرکٹ کے شائقین نے سوشل میڈیا پر شائع کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لولاب کرکٹ ایسوسی ایشن سے وابستہ فرحت خان جموں و کشمیر پولیس میں بحیثیت سپاہی کام کرتے ہیں اور کرکٹ کھیلنے کا جنوں بچپن سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کشمیری نوجوانوں میں کرکٹ کا عنصر ڈی این اے میں رچ بس گیا ہے اور شاید یہ ماں کے دودھ میں ملائی ہوئی کوئی شے ہے جو ہمارے وجود میں تاحیات موجود رہتی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمیں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور دکھانے کا موقع نہیں ملتا۔‘

فرحت خان پاکستان کے شاہد آفریدی کو اپنا استاد مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’لالا جیسا کرکٹ کوئی نہیں کھیلتا۔ وہ چھکے لگانے کا بادشاہ ہے۔‘ میں نے ان سے پوچھا کہ پولیس میں رہ کر لالا کی تعریف کر رہے ہو، کیا اس سے آپ کو مسئلہ تو نہیں ہوگا؟
’اگر ہم کرکٹ کو بھی سرحد کے اندر بند کرنے لگے تو پھر دنیا میں ہر کوئی اس کھیل کو اپنی گلی تک محدود رکھنے پر مجبور ہو جائےگا۔ میں شاہد آفریدی کو اپنا گرو مانتا ہوں اور اگر یہ کہنے پر مجھ پر غداری کا الزام عائد ہوگا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔‘

فرحت کی ٹیم میں ٹیکی پورہ کے بیشتر نوجوان شامل ہیں اور باضابطہ دوسرے گاؤں کی ٹیموں کے ساتھ مقابلے کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان نے کہا کہ نوے کی دہائی میں ان کے والد یہاں کرکٹ کھیلتے وقت لاپتہ ہوگئے تھے جن کے بارے میں اب تک کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔

ٹیکی پورہ کرکٹ ٹیم میں شامل نوجوان گو کہ ہر چیز آپس میں بانٹتے ہیں مگر مین آف دی میچ پانے والے فرحت خان نے پہلی بار ذرا سی کنجوسی کا مظاہرہ کیا جب انہوں نے مچھلی پکا کر اس کو اکیلے میں کھایا۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میچ چونکہ لمبا تھا، کافی دیر کریز پر موجود رہنے سے پروٹین کی کمی محسوس کر رہا تھا لہذا میں نے ڈھائی کلو وزنی مچھلی کھا کر اس کو پورا کیا تاکہ اگلے میچ میں اس سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکوں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ