’ہم مودی کے یار ہیں نہ ہی مددگار، وزیراعظم کا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا‘

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا اور بین الاقوامی اخبار نے خبر کو سنسنی خیز بنانے کی کوشش کی ہے۔

تصویر: اے ایف پی

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا اور بین الاقوامی اخبار نے خبر کو سنسنی خیز بنانے کی کوشش کی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ بھارت میں کانگرس کی حکومت آئے یا مودی کی، ’ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں، بھارتی انتخابات میں ہار جیت کا فیصلہ بھارتی ووٹرز نے کرنا ہے۔‘

ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں اور پھر غیرملکی صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ’اگر بھارتی انتخابات میں کانگرس کو کامیابی حاصل ہوئی تو پھر بھارت کے لیے کشمیر پر پیش رفت مشکل ہو جائے گی، جبکہ بی جے پی کی کامیابی کی صورت میں کشمیر پر کسی سمجھوتے پر پہنچا جا سکتا ہے۔‘

اس حوالے سے شاہ محمد قریشی نے کہا کہ عمران خان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہلاٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بھارت میں جو بھی حکومت آئے ہم اُس کے ساتھ رابطہ کرنے کو تیار ہیں۔ وزیراعظم آر ایس ایس اور انتہا پسند ہندوؤں کے خلاف ماضی میں بیان دے چکے ہیں۔‘

وزیراعظم عمران خان کے اس بیان پر ارکان پارلیمان نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے دوسرے ملک میں ہونے والے انتخابات میں اپنی ترجیح ظاہر کر دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ نریندر مودی کو ساری دُنیا گجرات کا قاتل کہتی ہے مودی کا رویہ پاکستان کے لیے ہمیشہ جارحانہ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک طرف وزیر خارجہ بیان دے رہے ہیں کہ بھارت کی جانب سے حملے کا خدشہ ہے جبکہ دوسری جانب وزیراعظم کہتے ہیں کہ بی جے پی جیتے تو معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں اس طرح کے بیان کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔‘

سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ نریندر مودی پاکستان کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔ مودی کی پاکستان دشمنی کبھی ختم نہیں ہو گی بلکہ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو بھی حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کو مودی کے دوبارہ جیتنے سے متعلق بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔

عوامی نیشنل پارٹی کی سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ اگر وزیر اعظم عمران خان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر رپورٹ کیا گیا ہے تو وزیراعظم آفس کی جانب سے باضابطہ تردید آنی چاہیے۔

سوشل میڈیا اور عمران خان کا بیان

سوشل میڈیا ویب سائٹس پر بھی پاکستان اور بھارت کے صحافیوں اور سیاستدانوں نے اس بیان پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

بھارتی لوک سبھا کے رکن پرتا سنگھ باجوہ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’یقیناَ یہ وزیراعظم نریندر مودی کے لیے بڑا دن ہے کیونکہ پاکستانی وزیراعظم نے اُن کی لوک سبھا میں واپسی کی تائید کر دی ہے۔‘

بھارت کی عام آدمی پارٹی سے منسلک ارویند کیجریوال کا اسحوالے سے کہنا تھا کہ ’پاکستان اور وزیراعظم عمران خان نے کھل کر نریندر مودی کی حمایت کر دی ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتخابات میں جیتنے کے لیے مودی سرکار اور پاکستان کے درمیان کچھ خفیہ معاہدہ ہوا ہے‘۔

پاکستانی صحافی عباس ناصر نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’ہمارے وزیراعظم اس بات پر یقین کر رہے ہیں کہ گجرات میں قتل عام کرنے والا پاکستان اور بھارت کے لیے امن کا پیغام لائے گا۔‘

جبکہ کچھ سوشل میڈیا صارفین کا یہ کہنا تھا کہ نریندر مودی کے حق میں پاکستانی وزیراعظم کا بیان صرف اس وجہ سے ہے کہ پاکستان کی خار میں نریندر مودی کو ووٹ نہ مل سکیں اور کانگرس جیت جائے، جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ ننریندر مودی کا جیتنا عمران خان کی ذاتی خواہش بھی ہو سکتی ہے۔

ایک صارف نے کہا کہ ’فاسٹ بولر نے گگلی کروا دی ہے۔‘ بھارت کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کپل نے لکھا ہے کہ ’وزیراعظم عمران خان اس لیے نریندر مودی کی واپسی چاہتے ہیں کہ گذشتہ پانچ سالوں میں جتنا اندرونی نقصان بی جے پی نے پہنچایا ہے اتنا نقصان 70 سالوں میں پاکستان اور آئی ایس آئی بھی نہیں پہنچا سکی‘۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان