کوہ قاف میں جنگ کے شعلے!

ترکی نے باکو کے قدرتی ذخائر پر ہمیشہ للچائی نظریں رکھیں تاکہ یورپ اور اسرائیل کو تیل وگیس کی بلاتعطل سپلائی جاری رہ سکے۔

ترکی کی جانب سے باکو کی براہ راست مدد کے دعوے اگر درست ثابت ہوتے ہیں تو ایسے میں آرمینیا کی مدد کے لیے روس پر دباؤ میں اضافہ ہو جائے گا(اے ایف پی)

یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

مغربی ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع آذربائیجان اور آرمینیا کا نام سنتے ہی قدیم قصے کہانیوں میں پریوں کے دیس کوہ قاف کا خیال ذہنوں میں گردش کرنے لگتا ہے۔

قفقاز یا کاکیشیا کو ترکی اور ایران نے ہمسائیگی کے حصار میں لے رکھا ہے۔ تیسرا پڑوسی جارجیا ایک عیسائی ملک ہے جبکہ روس کی سرحد آرمینیا کے ساتھ ملتی ہے۔ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال آذربائیجان بحیرہ کیسپئین کے ساحل پر واقع ہے۔ اس کے مقابلے میں آرمینیا ’لینڈ لاکڈ‘ علاقہ ہے۔

آرمینیا قدیم تاریخ کا وارث خطہ سمجھا جاتا ہے۔ مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی سیلاب کے بعد کوہ ارارات کے علاقے میں آ کر لگی تھی جو ترکی میں آرمینیا کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ اگر آرمینیا کا دعویٰ درست مان لیا جائے تو انسانی تہذیب کا آغاز اسی علاقے سے ہوا۔

شومئی قسمت انسانی تہذیب کے اولین گہوارے آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگورنو کاراباخ کا دبا ہوا تنازع ایک بار پھر لڑائی کی خبروں کا موضوع بنا ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کی جانب سے ناگورنو کاراباخ کی سیادت پر کنڑول کی جنگ گھمسان کا رنگ اختیار کر چکی ہے، جس میں سینکڑوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان مسلح تنازع رکوانے میں روس ماضی میں مؤثر کردار کرتا چلا آیا ہے۔

 لیکن ترکی کی جانب سے کھل کر آذربائیجان کا ساتھ دینے کی وجہ سے اس بار حالات یکسر مختلف ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردغان باکو کی حمایت میں خم ٹھونک کر سامنے آئے ہیں۔ ترک وزیر خارجہ میولود چاوش اولو کا ایک بیان سامنے آیا جس میں وہ اعلان کر رہے ہیں کہ ’ضرورت پڑنے پر انقرہ، باکو کی درخواست پر اس کی فوجی مدد کو تیار ہے۔‘

انہوں نے خبردار کیا ’کہ تنازع اگر آذربائیجان کی خود مختار جمہوریہ نخجوان تک پہنچا تو ایسے میں انقرہ مداخلت پر مجبور ہو گا۔‘ نخجوان جمہوریہ کی سرحدیں ترکی سے ملتی ہیں۔ آرمینیائی حکام کے مطابق انقرہ، ترک فوجی ماہرین اور ڈرونز سمیت دیگر فوجی امداد پہلے ہی باکو کو فراہم کر چکا ہے۔ شام سے کرائے کے جنگجو آذربائیجان بھجوانے سے متعلق خبریں پہلے ہی گرم ہیں، تاہم باکو ان افواہوں کی صحت سے انکار کرتا ہے۔

ترکی کی جانب سے باکو کی براہ راست مدد کے دعوے اگر درست ثابت ہوتے ہیں تو ایسے میں آرمینیا کی مدد کے لیے روس پر دباؤ میں اضافہ ہو جائے گا۔ روسی مداخلت کے بعد مغربی دنیا خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح ترکی کی براہ راست مداخلت سے آرمینیا میں بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان سے مغربی دنیا نئے مخمصے کا شکار ہونے کا قوی امکان ہے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔

تنازع میں ترکی کی فعال فوجی مداخلت کے نیٹو میں شامل رکن ملکوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ایران کے اس معاملے میں کودنے کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ کیا اس کے بعد امریکہ کو ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز مل سکتا ہے؟ روس کی جانب سے آرمینیا کی فوجی مدد کی صورت میں مغربی دنیا کیا کر سکتی ہے؟ کیا ناگورنو کاراباخ کا تنازع ترکی ۔ روس لڑائی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے؟

ان تمام سوالوں کا جواب اتنا آسان نہیں کیونکہ اس مرتبہ ناگورنو کاراباخ کا معاملہ ایک بڑے علاقائی یا بین الاقوامی تنازع کو ہوا دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ قضیئے سے متعلق تمام علاقائی اور بین الاقوامی ایکٹرز کے سوا، ایران کا معاملہ کئی اعتبار سے حساس ہے۔

پہلی وجہ متنازع علاقے سے ایران کی جغرافیائی قربت ہے۔ ناگورنو کاراباخ سمیت ایران کی دونوں ملکوں آذربائیجان اور آرمینیا کے ساتھ طویل سرحد ملتی ہے۔ دونوں فریقین کی جانب سے ارادی یا حادثاتی حملوں کی وجہ سے ایران کی صورت حال مخدوش ہو سکتی ہے۔

باکو اور انقرہ میں ایسے عناصر موجود ہیں کہ جو ڈرونز اور میزائل ایرانی سرحد کے اس پار بھیج کر آذربائیجان اور ایران کے درمیان حالات کو مشتعل کر سکتے ہیں۔ ایرانی علاقے میں ڈرونز اور میزائل کے گرنے سے متعلق اطلاعات پہلے ہی تواتر کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔

تنازع طول پکڑنے کی صورت میں پناہ گزینوں کا مسئلہ سر اٹھا سکتا ہے، جس سے ایران بری طرح متاثر ہو گا۔ یاد رہے کہ سوویت یونین جب 1989 میں آخری سانسیں لے رہا تھا تو اس وقت ناگورنو کاراباخ کا تنازع ایک مرتبہ پھر سر اٹھانے کی وجہ سے آذربائیجانی مہاجرین کی بڑی تعداد میں ایران ہجرت کے موقع پر تہران کو انہیں اپنے ہاں کیمپوں میں ٹھرانا پڑا۔

دوسری وجہ لسانی اور علاقائی تنازعات ہیں۔ 1828 تک آذربائیجان اور آرمینیا میں شامل زیادہ تر علاقے ایران کا حصہ شمار ہوتے تھے، تاہم دو طویل جنگوں کے بعد وہ علاقے پکے ہوئے پھل کی طرح روس کی جھولی میں آ گرے۔ سویت یونین سے نکلنے کے بعد بھی آذربائیجان کا ایران سے مختلف شعبوں میں قریبی تعاون اور ثقافتی تعلقات قائم رہے۔

سوویت یونین 1940 میں ایرانی آذربائیجان کو روسی اتحاد میں شامل کرانا چاہتا تھا۔ اس وقت ایک افسانہ گھڑا گیا کہ فارسی سامراجیوں نے آذربائیجان کو تقسیم کیا، لہذا اسے اب دوبارہ متحد کیا جانا چاہئے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد جمہوریہ آذربائیجان نے یہ کہانی گلے سے لگا لی۔

نوے کی دہائی کے ابتدائی سالوں کے دوران جمہوریہ آذربائیجان میں نفوذ کے لیے ایران اور ترکی کے درمیان مسابقت شروع ہو گئی۔ دوسری جانب اسرائیل نے ایران پر نظر رکھنے کے لیے آذربائیجان سے قریبی تعلقات استوار کر لیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران سے متعلق مشکلات کی وجہ سے امریکہ اور یورپ نے ترکی کے مضبوط کردار کی بات شروع کر دی۔ باکو میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہلکی پھلکی ناراضی کے باوجود انقرہ نے آذربائیجان سے قریبی تعلقات برقرار رکھے کیونکہ ترکی نے ہمیشہ باکو کے تیل اور گیس کے ذخائر کو للچائی نظروں سے دیکھا تاکہ یورپ اور اسرائیل کو تیل وگیس کی بلاتعطل سپلائی جاری رہ سکے۔

ان حالات میں اگر موجودہ تنازع ہاتھوں سے نکل گیا تو ایران کہیں کا نہیں رہے گا۔ ترکی کی مدد سے آرمینیا کے مقابلے میں آذربائیجان کی فتح سے باکو اور انقرہ کو حوصلہ ملے گا کہ وہ جمہوریہ آذربائیجان کا الحاق ایرانی آذربائیجان سے کر سکیں۔

ایران کے مشرقی آذربائیجان صوبہ کے صدر مقام تبریز سے 150 کلومیٹر کی مسافت پر ترکی کی فوج خودمختار جمہوریہ نخجوان میں موجود ہے۔ تنازع اس علاقے تک پھیلنے کی صورت میں ایران اور ترکی کے درمیان مدبھڑ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ایران فی الوقت ترکی اور آذربائیجان سے فوجی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بڑی آذربائیجانی آبادی کے تناظر میں باکو سے سینگ پھنسانے کا نتیجہ خانہ جنگی کے سوا کچھ اور نہیں نکلے گا! امریکہ، اسرائیل اور خلیجی ملکوں کے نرغے کی وجہ سے ایران کی ترکی کے ساتھ ’جنگ‘ گھاٹے کا سودا ہی نکلے گی۔ تہران کی جانب سے کسی دفاعی نوعیت کا اقدام بھی امریکا کو ایران پر حملے کی شہہ دے سکتا ہے۔

1990 کے بعد سے اپنی علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت کے پیش نظر ایران غیرفعال پالیسی پر عمل کر رہا ہے جس کے تحت تہران کی کوشش رہی ہے کہ وہ آذربائیجان کو کم سے کم ناراض کرے۔ ایران، آذربائیجان کے علاقائی استحکام کے لیے حمایت اور عملی تعاون فراہم کرتا چلا آیا ہے۔ تہران، آرمینیا سے تعلقات استوار کر کے ناگورنو کاراباخ تنازع حل کے لیے ثالثی کی پیش کش بھی کر چکا ہے۔ تاہم یہ پیش کش ترکی، روس اور مغربی دنیا قبول کرنے سے انکار کرتی چلی آ رہی ہے۔

ایران کی وجہ سے قفقاز کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ایشوز سے جوڑا جاتا ہے۔ اسرائیل اور کچھ عرب ممالک، آذربائیجان کے توسط سے ایران کو نرغے میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آذربائیجانی رضاکار شام کی جنگ میں ’داد شجاعت‘ دے چکے ہیں اور اب مبینہ طور پر شام سے جنگجو آذربائیجان مدد کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ تنازع کا اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھتا ہے، اس کے مشرق وسطیٰ کی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہونا ناگزیر ہیں۔

کوہ قاف [کاکیشیا] میں لگی جنگ کی حالیہ آگ سے یہی سبق ملتا ہے کہ تنازعات کو زیادہ دیر تک گلنے سڑنے کے لیے نہیں چھوڑنا چاہے۔ کوئی بھی تنازع مستقبل بنیادوں پر دبایا نہیں جا سکتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ