پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے جمعے کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے اعلان کیا کہ عوامی شکایت کے پیش نظر اور فحش اور نامناسب مواد کے باعث معروف سوشل میڈیا ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
تاہم ٹک ٹاک پر اس پابندی کے حوالے سے بتائی گئی وجہ پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے سوشل میڈیا ایکسپرٹ حبیب اللہ خان سے رابطہ کیا اور جاننا چاہا کہ ٹک ٹاک پر پابندی کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں اور پاکستان کو اس سے کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ ٹک ٹاک پر موجود صارفین اصل پاکستان کی عکاسی کرتے ہیں کیوں کہ یہ ایک عام غریب اور نوجوان پاکستانی کو اظہار کا موقع فراہم کرنے کا ایک پلیٹ فارم تھا۔
حبیب اللہ خان کے مطابق: ’ٹک ٹاک ایک ایسی ایپ ہے جس میں صلاحیت ہے کہ وہ پاکستانیوں کی زندگی تبدیل کر سکے۔‘
انہوں نے بتایا: ’ٹک ٹاک غریب عوام تک پہنچنے کا واحد ذریعہ تھا۔ ٹک ٹاک پر پیغام اس طرح پہنچتا ہے کہ عوام سننے کے موڈ میں ہوتے ہیں، مثال کے طور پاکستان کا اس وقت ایک اہم مسئلہ زرعی پیداوار کو بڑھانا ہے، لہذا اس ایپ کے ذریعے حکومت دیہاتوں تک پہنچ سکتی تھی اور انہیں بتا سکتی تھی کہ پیداوار کو بڑھانے کے کیا طریقے ہیں۔‘
ٹک ٹاک ایک انٹرٹینمنٹ ایپ ہے جس پر لوگ مختصر دورانیے کی ویڈیوز کے ذریعے اظہار خیال کرتے ہیں اور مختلف مزاحیہ خاکے پیش کرتے ہیں۔
حبیب اللہ کا کہنا تھا کہ ’عام لوگوں کے پاس مختلف بیانیوں اور موقف تک رسائی کے بہت کم مواقع ہیں مگر ٹک ٹاک کے ذریعے یہ ممکن ہے کہ آپ کو ایکسپوژر مل سکے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ٹک ٹاک دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے مختلف ہے کیونکہ اس پر نہ صرف آپ کو وہ مواد دکھایا جاتا ہے جسے آپ فالو کرتے ہیں بلکہ وہ مواد بھی دکھایا جاتا ہے جو ٹرینڈ کر رہا ہو، یہی وجہ ہے کہ ٹک ٹاک کے الگورتھم باقی پلیٹ فارمز سے کہیں جدید ہیں۔‘
ٹک ٹاک پر پابندی کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
وزیر اطلاعات شبلی فراز نے گذشتہ ماہ اخبار ’دی نیوز’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’وزیراعظم عمران خان نے انہیں کہا ہے کہ ٹک ٹاک جیسی ایپلی کیشنز معاشرے اور معاشرتی اقدار کو نقصان پہنچا رہی ہیں اس لیے ان پر پابندی ہونی چاہیے۔‘
سوشل میڈیا ایکسپرٹ حبیب اللہ خان نے سیاسی زاویے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے استعمال کی طاقت بیرون ملک پاکستانی ہیں اور بیرون ملک مقیم پاکستانی ٹک ٹاک پر نہیں مگر پاکستان میں ووٹ ڈالنے والے عوام بڑی تعداد میں موجود ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حبیب اللہ خان کے مشاہدے کے مطابق: ’کرونا (کورونا) وبا کے باعث جب لاک ڈاؤن شروع ہوا تو آٹھ مہینوں میں پاکستانی ٹک ٹاک صارفین کی تعداد ایک کروڑ سے بڑھ کے دو کروڑ سے زیادہ ہو گئی تھی جبکہ وبا کے بعد جب معاشی مشکلات بڑھیں تو ٹک ٹاک پر تحریک انصاف پر تنقید پر مبنی ویڈیوز زیادہ نظر آنے لگیں۔ پی ٹی آئی کے ایک ناقد اور مسلم لیگ ن کے حامی سعود بٹ بھی ٹک ٹاک پر مشہور ہوئے اور ان کی ویڈیوز بہت زیادہ دیکھی جاتی تھیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ڈاکٹر ارسلان خالد سے رابطہ کیا، جن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی ریگولیٹر ہے اور ان کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ صارفین کو انٹرنیٹ پر محفوظ ماحول فراہم کریں، کیونکہ نوجوانوں اور کم عمر لڑکیوں کی جانب سے سینکڑوں شکایات درج کروائی گئی تھیں۔‘
ڈاکٹر ارسلان خالد نے مزید بتایا کہ ’پی ٹی اے ٹک ٹاک کے ساتھ رابطے میں رہے گا اور جیسے ہی اس کی انتظامیہ ایک طریقہ کار اختیار کرلے گی جس سے عوام کے تحفظات دور ہو سکیں گے تو ٹک ٹاک پر سے پابندی ہٹا دی جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کو ایک فعال ڈیجیٹل دنیا کے حوالے سے شعوری پروگرام کی ضرورت ہے جس سے عوام میں آگاہی پیدا کی جا سکے کہ انٹرنیٹ کو کیسے محفوظ طریقے سے استعمال کرنا ہے۔ انشا اللہ اگلے سال کے آغاز میں پاکستان میں بڑے پیمانے پر ڈیجیٹل لٹریسی پروگرام کا آغاز کر دیا جائے گا۔‘
جب ڈاکٹر ارسلان خالد سے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے وزیراعظم سے منسوب ٹک ٹاک پر پابندی کے بیان کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس بارے میں علم نہیں۔‘
ٹک ٹاک پراور کس ملک میں پابندی ہے؟
پاکستان ٹک ٹاک پر پابندی کے بعد اس چینی ایپ پر لگام ڈالنے والا دوسرا ملک بن گیا ہے۔ اس سے قبل صرف بھارت نے لداخ تنازع کے بعد ٹک ٹاک اور دیگر چینی ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کی تھی۔
امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی رواں برس اگست میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی تھی مگر ستمبر کے آخر میں امریکی عدالت نے اس ایپ پر عائد پابندی عبوری طور پر ہٹا دی تھی۔