’بیٹا عالم بننا چاہتا ہے مگر ظالموں نے مدرسے کو بھی نہیں بخشا‘

عبدالرحمان ہسپتال کے عملے سے بھی خوش نہیں تھے اور کہنے لگے کہ ان کے بیٹے کو ہسپتال لایا گیا اور تاحال وہ زخمی حالت میں سٹریچر پر پڑا ہے لیکن ہسپتال والوں نے اس کو کسی وارڈ میں شفٹ نہیں کیا۔

سٹریچر پر پڑا جواں سال بیٹے کا جسم بری طرح جھلس گیا تھا، باپ اپنے اس بیٹے کو ہسپتال کے ایمرجنسی کوریڈور میں ادھر ادھر کرب کی حالت میں  لے جا رہا تھا تاکہ ان کو جلد از جلد علاج معالجے کی سہولت دستیاب ہو سکے اور وہ اپنے جوان بیٹے کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر دیکھ سکے۔

یہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے مناظر تھے جہاں پشاور کی دیر کالونی میں واقع سپین جماعت نامی مسجد جو جامعہ زبیریہ کے ساتھ متصل ہے، میں صبح درس کے دوران دھماکہ ہوا تھا جس میں  ہسپتال انتظامیہ کے مطابق کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

انہی زخمیوں میں ایک 25 سالہ نوجوان تھا جن کے والد عبدالرحمان ایمرجنسی وارڈ میں کھڑے بیٹے کے جھلسے ہوئے بدن کے اعضا کو دیکھ رہے تھے۔ ان کے بیٹے پر ایلومینیم کی شیٹ بچھائی گئی تھی تاکہ جھلسے ہوئے بدن جراثیم سے محفوظ ہوں۔

عبدالرحمان کا تعلق مردان کے علاقے جلالہ سے تھا جن کا بیٹا مدرسے کا طالب علم تھا اور اسی مدرسے کے ہاسٹل میں رہائش پذیر تھا۔ دھماکہ مدرسے کی عمارت کے قریب ہی واقع مسجد میں ہوا جہاں پر اسی مدرسے کے طلبہ صبح درس کے لیے روزانہ جاتے ہیں۔

ان کا بیٹا بھی صبح سویرے اٹھ کر نماز کے بعد درس کے لیے مسجد کے مرکزی ہال گیا جہاں تقریبا آٹھ بجے ہال دھماکے کی گونج سے لرز اٹھا۔

عبدالر حمان نے بتایا کہ جیسے ہی انہیں دھماکے کی اطلاع ملی وہ فوراً سے بیٹے کی خیریت دریافت کرنے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچ گئے۔

’میں نے اپنے بیٹے کو تعلیم کی غرض سے مدرسے بھیجا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ وہ عالم بن کر مسلمانوں اور دین کی خدمت کر سکے، بچوں کو دین کی تعلیم پڑھا سکے لیکن ظالموں نے مدرسے اور مسجد کو بھی نہیں بخشا اور ان کو بھی نشانہ بنا ڈالا۔‘

عبدالرحمان ہسپتال کے عملے سے بھی خوش نہیں تھے اور کہنے لگے کہ ان کے بیٹے کو ہسپتال لایا گیا اور تاحال وہ زخمی حالت میں سٹریچر پر پڑا ہے لیکن ہسپتال والوں نے اس کو کسی وارڈ میں شفٹ نہیں کیا۔

تاہم ہسپتال ترجمان محمد عاصم کے مطابق تمام زخمیوں کو بہتر طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے اور زخمیوں میں زیادہ تر کے جسم جھلس گئے ہیں تو ان میں سے پانچ زخمیوں کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے برن یونٹ میں شفٹ کیا گیا ہے جبکہ باقی کو ہسپتال کے مختلف وارڈز میں شفٹ کیا گیا ہے۔

عبدالرحمان کی طرح دیگر زخمیوں کے ورثا بھی ہسپتال کے احاطے میں موجود تھے اور ہر کوئی اپنے مریض کی صحت یابی کے لیے دعائیں مانگ رہا تھا۔ چونکہ زخمیوں اور ہلاک ہونے والے سارے طلبہ ہی تھے تو ہسپتال میں بھی ماحول انتہائی غمگین تھا۔

 

مگر ان زخمی طلبہ کے گھر والے انتہائی صبر اور برداشت کا مظاہرہ کر رہے تھے جس کے بارے میں ہسپتال انتظامیہ نے بھی کہا کہ ’دھماکے کے بعد ہم نے ایک چیز دیکھی کہ زخمی افراد کے ورثا نے نہایت ہی صبر سے کام لیا اور ہسپتال والوں کے ساتھ بہت تعاون کیا تاکہ ان کے زخمیوں کا باقاعدہ علاج کیا جا سکے۔‘

دھماکے کی جگہ پر کیا ماحول تھا؟

جس مسجد میں دھماکہ ہوا تھا یہ مدرسہ جامعہ زبیریہ کے ساتھ منسلک تھا اور وفاق المدارس کے زیر انتظام چل رہا تھا۔ وفاق المدارس خیبر پختونخوا کے ترجمان مفتی سراج الحسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس مدرسے میں تقریباً 600 طلبہ رجسٹرڈ ہیں اور صبح جس وقت دھماکہ ہوا اس وقت دو سو کے قریب طلبہ وہاں موجود تھے۔

سراج نے بتایا کہ ’یہ دیوبند مکتبہ فکر کا مدرسہ تھا جہاں پر اول درجے سے آخری درجے تک کے طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں جس میں چھوٹے بڑے عمر کے طلبہ شامل ہیں۔‘

جب ہم مسجد کے مرکزی ہال میں گئے تو ہال کے بالکل وسط میں ایک بڑا گھڑا بنا ہوا تھا اور سپرٹنڈنٹ آف پولیس سٹی وقار کھرل کے مطابق اسی جگہ پر ایک مشکوک بیگ رکھا گیا تھا جس میں بارودی مواد چھپایا گیا تھا جس کے نتیجے میں دھماکہ ہوا۔

بم ڈسپوزل یونٹ کے مطابق دھماکہ ٹائم بم تھا اور اس میں پانچ کلو تک بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔

دھماکے کی شدت کی وجہ سے ہال کی چھت پر چھروں کے نشانات واضح طور پر نظر آرہے تھے اور چھت پر لگے پنکھوں کو بھی نقصان پہنچا تھا جبکہ مسجد کے ممبر جہاں امام مسجد بیٹھتے ہیں اس کی ایک دیوار پریشر کی وجہ سے گرچکی تھی۔ اسی طرح ہال کی کھڑکیوں اور شیشوں کو بھی نقصان پہنچا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ مسجد اس محلے کی بڑی مسجد تھی جس میں تقریباً 1500 نمازیوں کی گنجائش موجود ہے اور اسی مسجد کے ہال کو جامعہ زبیریہ مدرسے کے طلبہ درس کے لیے بھی استعمال کرتے تھے جہاں پر ان کے مہتمم رحیم حقانی ان کو پڑھاتے ہیں جس وقت دھماکہ ہوا تھا اس وقت بھی یہی مہتمم درس میں مصروف تھے۔

پشاور مذہبی مقامات پر دھماکوں کی تاریخ

پشاور میں مساجد، مدارس اور دیگر مذاہب کے مقامات کو ماضی میں بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

2013 میں جی ٹی روڈ پر واقع اہل تشیع کے زیر انتظام چلنے والے مدرسے میں جمعے کے نماز سے پہلے خود کش دھماکہ ہوا تھا جس میں 14 افراد ہلاک جبکہ 30 کے قریب لوگ زخمی ہوئے تھے۔

اسی طرح  2013 میں ہی پشاور کے سینٹ چرچ میں اس وقت دھماکہ ہوا جب چرچ میں لوگ اپنی عبادت میں مصروف تھے جس کے نتیجے میں کم از کم 127 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

پشاور کے پجگی روڈ پر واقع تبلیغی مرکز میں  2014 میں ایک دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں کم از کم 10 افراد ہلاک  اور 60 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ یہ دھماکہ ایسے ہوا تھا جب وہاں پر لوگ ایک اجتماع کے لیے جمع ہوئے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان