خواتین ماضی کی نسبت ورزشی زندگی کی طرف زیادہ مائل

سپورٹ انگلینڈ‘ نے 2015 میں ’دِس گرل کین‘ مہم کا آغاز کیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو کھیلوں میں شرکت کے لیے قائل کیا جا سکے۔’

ایک نئے سروے رپورٹ کے مطابق انگینڈ میں فعال اور چست زندگی گزارنے والے مرد و خواتین کے درمیان عددی فرق سمٹ کر 90 ہزار رہ گیا ہے۔

’سپورٹ انگلینڈ‘ کی جانب سے کیے گئے سروے کے نتائج یہ واضح کرتے ہیں کہ ایک سال کے دوران برطانیہ میں ورزشی زندگی گزارنے والے بالغوں کی تعداد تقریباً پانچ لاکھ تک بڑھ گئی ہے۔

کھیلوں سے وابسطہ تنظیموں کے مطابق اس اضافے کی وجوہات میں سے ایک خواتین کا کھیلوں اور باقاعدہ ورزش میں حصہ لینا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ 12 ماہ کے دوران فعال زندگی گزارنے والے مرد و خواتین کے درمیان فرق تین لاکھ 52 ہزار سے کم ہو کر دو لاکھ 58 ہزار تک رہ گیا ہے۔

ایسی خواتین جنہوں نے فعال اور صحت مند طرزِ زندگی کو اپنایا ہے انہوں نے ایک ہفتے کے دوران تقریباً 150 منٹ جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہے اور ان کی تعداد بڑھ کر دو لاکھ 80 ہزار ہو گئی ہے۔

اس دوران کاہل اور غیر فعال خواتین کی تعداد میں بھی قابل قدر کمی دیکھی گئی ہے جو ایک لاکھ 46 ہزار کے قریب ہے تاہم مردوں کا فعال اور صحت مند طرزِ ذندگی کی طرف رجحان ابھی بھی خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

انگلینڈ میں ہونے والے سروے میں ایک لاکھ 76 ہزار افراد نے حصہ لیا اور اس کے نتائج کے مطابق 65 فیصد مردوں کے مقابلے میں 61 فیصد خواتین فعال زندگی گزار رہی ہیں۔

’سپورٹ انگلینڈ‘ کے چیف ایگزیکیٹو ٹِم ہولینگزورتھ کا ماننا ہے کہ چیزیں بہتری کی جانب اشارہ کر رہی ہیں۔

 انہوں نے کہا: ’کھیلوں اور جسمانی ورزش میں صنفی تفریق میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم اب بھی یہ چیز ہر ایک کو راغب نہیں کر رہی۔‘

ٹِم ہولینگزورتھ نے مزید کہا: ’یہ کہنا صحیح یا منصفانہ نہیں ہوگا کہ کم آمدنی والے افراد، خواتین، سیاہ فام اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا اب بھی فعال ہونا ممکن نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ مختلف پروگرامز کے ذریعے معاشرے کے تمام افراد کو فعال اور صحت مند زندگی کی جانب لانے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔

’میں چاہتا ہوں کہ ہم اس شعبے کو فروغ دینا جاری رکھیں اور اس بات کا یقین کر لیں کہ معاشرے کے تمام افراد بلا تفریق رنگ و نسل یا جنس فعال اور صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔‘

’سپورٹ انگلینڈ‘ نے 2015 میں ’دِس گرل کین‘ مہم کا آغاز کیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو کھیلوں میں شرکت کے لیے قائل کیا جا سکے۔

اس مہم کے آغاز کے ایک سال بعد 28 لاکھ نوجوان لڑکیوں اور خواتین نے کہا کہ اس مہم کے نتیجے میں وہ زیادہ فعال ہو گئی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل