’کشمیر برائے فروخت:‘ مقامی شہریوں نے بھارتی قانون مسترد کر دیا

بھارتی شہریوں کو کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت ملنے کے بعد کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے کیوں کہ لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس طرح ان کا تشخص ختم ہو جائے گا۔

سری نگر میں ایک کشمیری لڑکی اپنی ماں کے ہمراہ سکیورٹی فورسز کی چوکی سے گزر رہی ہے (روئٹرز فائل فوٹو)

بھارت کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے اپنے تازہ فرمان میں بھارتی شہریوں کو اس کے زیر انتظام کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت دے دی ہے، جس سے کشمیر کے لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کشمیر مخالف اقدام کا مقصد اس متنازع خطے کا مسلم اکثریتی کردار ختم کرنا اور اسے دوسرا فلسطین بنانا ہے۔

کشمیر بالخصوص جموں کے ہندو اکثریتی اضلاع میں نئے اراضی قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جموں میں لوگوں کو خدشہ لاحق ہے کہ ’پرامن علاقہ‘ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ یہیں زمین خریدیں گے۔

بھارتی وزارت داخلہ نے، جس کی باگ ڈور بی جے پی کے ہندوتوا رہنما امت شاہ کے ہاتھوں میں ہے، یہ فرمان منگل کو اس دن جاری کیا جب یہاں بھارتی فوج کی 27 اکتوبر 1947 کو کشمیر میں اترنے کے 73 برس مکمل ہونے پر یوم سیاہ منایا جا رہا تھا۔

فرمان جاری ہونے کے ایک روز بعد بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے سری نگر میں انسانی حقوق کے کارکنان خرم پرویز، پروینہ آہنگر کی رہائش گاہوں، انگریزی روزنامہ ’گریٹر کشمیر‘ نیز چند معروف غیر سرکاری تنظیموں یا این جی اوز کے دفاتر پر چھاپے مارے۔

این آئی اے کا کہنا ہے کہ یہ چھاپے بعض ’نام نہاد‘ این جی اوز اور ٹرسٹوں کو خیراتی سرگرمیوں کے نام پر موصول ہونے والی رقم کو جموں و کشمیر میں علاحدگی پسند سرگرمیوں پر صرف کرنے سے متعلق درج ایک مقدمے کی تحقیقات کے سلسلے میں ڈالے گئے ہیں۔

سرکاری ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ وزارت داخلہ نے کشمیر کے اراضی قوانین میں بڑے پیمانے پر ترمیم کر کے بھارت کے کسی بھی شہری کو اس متنازع خطے میں زمین خریدنے کا اختیار دے دیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ترمیم شدہ قوانین کی رو سے حکومت کسی بھی فوجی افسر کی تحریری درخواست پر کسی بھی قطعہ اراضی کو 'دفاعی علاقہ' قرار دے کر اسے فوج کو دفاعی ضرورت کے لیے دے سکتی ہے۔

تاہم بھارت کے زیر انتظام لداخ میں، جو رقبے کے لحاظ سے کشمیر سے بڑا ہے، ترمیم شدہ اراضی قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ اس پر وہاں کے بی جے پی رہنماؤں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ بھارتی حکومت نے گذشتہ برس پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک اس متنازع خطے میں درجنوں ایسے قوانین نافذ کیے ہیں جن پر کشمیریوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ان قوانین میں بھارتی شہریوں کو کشمیر کی شہریت دینا، زمین خریدنے اور نوکریاں کرنے کی اجازت دینا، جنگلات کی اراضی پر سرکاری تعمیرات کھڑا کرنے کی اجازت دینا، انسانی حقوق اور خواتین کمیشنز جیسے اہم اداروں کو ختم کرنا اور معدنی وسائل کو غیر مقامی افراد کے حوالے کرنا شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ برس پانچ اگست کو منسوخ کی گئی بھارتی آئین کی دفعہ 35 اے کی رو سے بھارت کی کسی دوسری ریاست کے کسی بھی شہری کو کشمیر میں جائیداد خریدنے اور یہاں کا مستقل شہری بننے کا حق حاصل نہیں تھا۔

دفعہ 35 اے کی رو سے اس متنازع خطے میں زمین کی خرید و فروخت کے علاوہ سرکاری نوکریوں اور وظائف، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو ہی حاصل تھا۔

بھارت نواز سیاسی جماعتیں سیخ پا

کشمیر کی تمام علاقائی بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے نریندر مودی حکومت کے اس فرمان کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔

کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنے ایک بیان میں اراضی ملکیت قانون میں ترمیم کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غیر زرعی اراضی کی خریداری اور زرعی اراضی کی منتقلی کو آسان بنا کر جموں و کشمیر کو اب فروخت کرنے کے لیے رکھا گیا ہے، جو غریبوں اور کم اراضی رکھنے والے عوام کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کی اراضی کو اس طرح سے فروخت کے لیے رکھنا ان آئینی یقین دہانیوں اور معاہدوں سے انحراف ہے جو جموں و کشمیر اور یونین آف انڈیا کے درمیان رشتوں کی بنیاد ہیں۔

انہوں نے کہا، ’یہ اقدامات اس بڑے منصوبے کا حصہ ہیں جس کا مقصد کشمیر کی شناخت، انفرادیت اور اجتماعیت کو ختم کرنا ہے۔‘

عمر عبداللہ نے نئے اراضی قوانین کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سارے اقدامات تنظیم نو ایکٹ 2019 کے تحت کیے جا رہے ہیں، جو جمہوری اور آئینی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عمل میں لایا گیا تھا اور اس دوران تینوں خطوں کے عوام کی ناراضی اور تحفظات کا بھی پاس نہیں رکھا گیا، جو پہلے سے ہی اس اقدام کو آبادیاتی تناسب بگاڑنے کی سازش سمجھ رہے تھے۔

’ایسے اقدامات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ نئی دہلی کو جموں و کشمیر کے لوگوں کے احساسات اور جذبات کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں بلکہ ان کو یہاں کی زمین کے ساتھ مطلب ہے۔‘

پی ڈی پی صدر و سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں زمینوں سے متعلق جاری نوٹیفکیشن حکومت ہند کی طرف سے جموں و کشمیر کے لوگوں کے اختیارات ختم کرنے، جمہوری حقوق سے محروم رکھنے اور وسائل پر قبضہ کرنے کے سلسلے کی ایک اور مذموم کوشش ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دفعہ 370 کو منسوخ کرنے اور وسائل کی لوٹ مار کے بعد اب زمینوں کی کھلے عام فروخت کے لیے راہ ہموار کی گئی ہے۔

کانگریس کے سینیئر رہنما و سابق وفاقی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی کشمیر میں آبادی کا تناسب بگاڑنے کی فرقہ ورانہ سوچ کے خلاف اگر قومی سطح پر حزب اختلاف ایک ساتھ ہو کر سازشی سوچ کے خلاف کمربستہ نہیں ہو جاتا تو کشمیر کے لوگ اپنی زور دار آواز اٹھائیں گے جس سے دنیا کی رائے عامہ بیدار ہو جائے گی اور کشمیر کا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر نئے انداز سے اجاگر ہو جائے گا جس کی ساری ذمہ داری مودی سرکار پر ہو گی۔

’مودی سرکار کی سوچ اس قدر ٹیڑھی ہے کہ اس کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی دستاویز الحاق کے ذریعے اس ریاست نے محدود الحاق کیا تھا مگر یہ ریاست دوسری ریاستوں کی طرح یونین میں مدغم نہیں ہوئی تھی۔‘

پروفیسر سوز نے بتایا کہ اب جو بی جے پی حکومت نے جموں و کشمیر میں رہائش کے قانون میں ترمیم کے ساتھ لاگو کیا ہے، تو اس کے تحت باہر کے لوگ یہاں باآسانی رہائش پذیر ہو سکتے ہیں جس کو جموں و کشمیر خصوصاً کشمیر کے لوگ کسی صورت میں تسلیم نہیں کریں گے۔

’وفاقی حکومت کو یہ بات بخوبی سمجھنی چاہیے کہ کشمیر کے لوگوں کا احتجاج عالمی سطح پر سنا جائے گا اور اس کا رد عمل بھارت کے مجموعی مفاد کے خلاف ہو گا۔‘

پروفیسر سوز کے بقول قومی سطح کے حزب اختلاف کو کشمیر کے ’پیپلز الائنس کے ساتھ رابطہ قائم کر کے حالات کو سمجھنا چاہیے تاکہ مودی حکومت کو سمجھایا جائے کہ اس طرح کے اقدامات سے جموں و کشمیر میں حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔

حریت کانفرنس کیا کہتی ہے؟

میر واعظ مولوی عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس نے بھارتی حکومت کی جانب سے رفتہ رفتہ کشمیر میں ’عوام مخالف قوانین‘ نافذ کر کے انہیں نفسیاتی طور پر خوفزدہ کرنے کی کارروائیوں اور احکامات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

نیز ان عوام مخالف قوانین کے خلاف احتجاج اور ناراضگی درج کرنے کے لیے 31 اکتوبر کو جموں و کشمیر میں پرامن احتجاجی ہڑتال کی اپیل جاری کی ہے۔

حریت کانفرنس نے یہ بات واضح کی ہے کہ اس طرح کے آمرانہ نقطہ نظر پر مبنی احکامات ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔
سینیئر حریت رہنماﺅں پروفیسر عبد الغنی بٹ، بلال غنی لون اور مولانا مسرور عباس انصاری نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر کی آبادی کے تناسب کو بدلنے کے لیے اپنی جارحانہ پالیسیوں کو آگے بڑھا رہی ہے تاکہ ہماری ہی زمین ہم سے چھین کر ہماری شناخت کو ختم کیا جا سکے اور ہمیں اپنی ہی سرزمین میں اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔

’نئی دہلی کشمیر کے عوام پر زور زبردستی یکے بعد دیگر ایسے قوانین نافذ کر رہی ہے جن کے ذریعے بیرون کشمیر کا کوئی بھی شہری یہاں زمین جائیداد خریدنے کا مجاز ہوگا اوراس قانون میں ترمیم کی وجہ سے سرکاری ملازمتوں اور تعلیم کے شعبوں میں بیرون کشمیر کے افراد کے براہ راست شامل ہونے کی وجہ سے ہمارے قدرتی وسائل کا بڑے پیمانے پر استحصال ہو گا۔‘

حریت رہنمائوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے قوانین کا نفاذ کشمیر کے پشتنی باشندوں کے حقوق پر شب خون مارنے کے مترادف ہے اور اس کا مقصد یہاں کے عوام کو اپنی زمین و جائیداد سے بے دخل کرنا ہے۔

'کشمیری گونگے بہرے جانوروں کی مانند نہیں ہیں کہ وہ اس طرح کے سامراجی قوانین کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کریں گے۔ عوام نے اپنے غیر متزلزل ارادوں اور بے پناہ قربانیوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایک مردہ قوم نہیں بلکہ ایک زندہ اور پرعزم قوم ہے جو وطن عزیز پر اس طرح کے جارحانہ حملوں کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔'

بتادیں کہ حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق گذشتہ برس پانچ اگست سے مسلسل نظربند ہیں اور ان کی جانب سے بیانات سامنے آنے کا سلسلہ بھی تب سے معطل ہے۔

مقامی لوگوں کا سخت ردعمل

کشمیری ریسرچ سکالر ڈاکٹر مدثر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ کشمیر میں یکطرفہ فیصلوں اور من مانی کے ذریعے فلسطین جیسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔

’یہ قطعاً قابل قبول نہیں ہے نیز یہ آئین کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ کشمیری ہمارے اپنے لوگ ہیں جبکہ دوسری طرف ایسے قوانین لاگو کیے جا رہے ہیں جن سے وہ متنفر ہیں۔‘

ڈاکٹر مدثر کے مطابق دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد کوئی ترقی نہیں ہوئی بلکہ حالات بد سے بد تر ہی ہو رہے ہیں، کشمیر کے لوگ کسی بھی فیصلے پر خوش نہیں ہیں۔

'جو زمین ہمارے ہاتھوں میں ہے اس پر ہمارا کوئی حق نہیں رہا ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو فروخت کرنا ہے۔'

کشمیر کے ہندو اکثریتی ضلع جموں کے رہنے والے ومل گپتا نامی شہری کا کہنا ہے کہ اراضی قوانین میں ترمیم ایک بہت بڑی نا انصافی ہے۔

’یہ ہمارے ساتھ ایک اور نا انصافی ہے، یہ جموں کے لیے اچھی خبر نہیں ہے، یہاں اب بہت ہی بڑے مسائل پیدا ہوں گے، ہمارا ڈوگرہ کلچر ختم ہو جائے گا۔‘

جموں کے ایک نوجوان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ باہر کے لوگ جموں میں ہی زمین خریدیں گے، سری نگر کوئی نہیں جائے گا اور پھر یہاں جموں والوں کے لیے کچھ بھی نہیں بچے گا۔

سرکاری موقف کیا ہے؟

کشمیر میں تعینات بھارتی حکومت کے نمائندے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے اراضی قوانین میں ترمیم کو جواز بخشتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں ملک کے دوسرے حصوں کی طرح جموں و کشمیر میں بھی صنعتیں قائم ہوں تاکہ یہاں ترقی اور بے روزگار نوجوانوں کو روزگار ملنا یقینی بن جائے۔

انہوں نے کہا کہ زرعی زمین کسانوں کے پاس ہی رہے گی اور اس کو صرف اور صرف اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

منوج سنہا کا ایک نیوز کانفرنس میں کہنا تھا: ’زرعی زمین کسانوں کے پاس ہی رہے گی اور اسی مقصد کے لیے استعمال ہو گی۔ ہم انڈسٹریل علاقوں کو شناخت کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں بھی ملک کے باقی حصوں کی طرح اچھی انڈسٹریز قائم ہوں تاکہ یہاں ترقی ہو اور نوجوانوں کو روزگار ملے۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا