لاہور: بارہ سالہ طالب علم کو ’ورغلا‘ کر ساتھ لے جانے والی استانی گرفتار

لاہور پولیس نے پانچویں جماعت کے طالب علم کو ‘ورغلا’ کر دوسرے شہر لے جانے والی ایک استانی کو حراست میں لے کر طالب علم کو والدین کے حوالے کر دیا۔

(تصویر بشکریہ محکمہ پنجاب پولیس)

لاہور پولیس نے پانچویں جماعت کے طالب علم کو ‘ورغلا’ کر دوسرے شہر لے جانے والی ایک استانی کو حراست میں لے کر طالب علم کو والدین کے حوالے کر دیا۔

لاہور کے ڈی ایس پی نواں کوٹ عمر فاروق بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 15 اکتوبر کو اسلم نامی شہری نے نواں کوٹ پولیس سٹیشن میں درخواست دی کہ ان کا 12 سالہ بیٹا مراد (فرضی نام) گھر کے قریب ہی ٹیوشن پڑھنے گیا لیکن واپس نہ آیا، وہ دو سال سے ایک استانی کے پاس ٹیوشن پڑھنے جا رہا تھا۔

نواں کوٹ پولیس نے مراد کے مبینہ اغوا کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کردی، جس دوران انکشاف ہوا کہ مراد کی استانی وقوعہ سے دو روز قبل گھر سے کہیں جانے کے بعد واپس آئی تھی۔ 

پولیس کے مطابق 15 اکتوبر کو مراد جب ٹیویشن پڑھنے آیا تو وہ اس کو ساتھ لے کر بازار سے کچھ سامان لانے کا کہہ کر چلی گئی اور واپس نہ آئی، جس پر پولیس کو یقین ہو گیا کہ مراد اپنی استانی کے ساتھ ہے۔

ڈی ایس پی عمر فاروق نے بتایا کہ انہوں نے استانی کی سب سے قریبی دوست کو شامل تفتیش کر لیا، جس نے پولیس کو بتایا کہ استانی اپنے گھر والوں کی وجہ سے بہت دلبرداشتہ تھی کیونکہ اس کے والدین ہر وقت اس کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے تھے، وہ گھر میں نہیں رہنا چاہتی تھی۔

تفتیش کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ یہی دوست استانی کو13 اکتوبر کو اپنے آبائی گاؤں شرق پور لے گئی تھی، جہاں اس نے استانی کو مشورہ دیا کہ وہ اس کے خاوند سے دوسری شادی کرلے، یوں وہ اکٹھے رہیں گے، ہمسائی کے پہلے ہی پانچ بچے تھے جس پر استانی نے انکار کردیا اور دو روز بعد گھر واپس آگئی تھی، جس کے بعد وہ مراد کے ساتھ چلی گئی۔ 

پولیس نے استانی کے موبائل نمبر سے اس کی لوکیشن ٹریس کی تو پتہ چلا کہ وہ گذشتہ 13 روز سے جڑانوالہ میں موجود ہے۔ انچارج انوسٹی گیشن نواں کوٹ قمر ساجد نے مکمل تیاری کے ساتھ لوکیٹر کی مدد سے جڑانوالہ جا کر ریکی کی تو معلوم ہوا کہ ایک خاتون لاہور سے مقامی مدرسے میں آئی ہے۔ قمر کے مطابق اس نے مقامی لوگوں کو بتایا تھا کہ مراد اس کا بھائی ہے اور یہ لوگ بے سہارا ہیں، جس پر مدرسہ کی پرنسپل نے ترس کھا کر اس کو مدرسہ میں بطور استانی رکھ لیا اور رہنے کے لیے ایک کمرہ دے دیا۔

29 اکتوبر کو انچارج انوسٹی گیشن قمر ساجد نے مقامی پولیس کی مدد سے استانی کو جڑانوالہ میں جانی موڑ سے حراست میں لے کر مراد کو ‘بازیاب’ کروا لیا، لاہور پہنچ کر جب استانی سے تفتیش کی گئی تو اس نے انکشاف کیا کہ وہ اپنے گھر سے تنگ تھی، اس کے والدین ہر بات پر ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے۔

اس نے مزید بتایا کہ اس کی عمر 18 سال ہے اور اس نے میٹرک کیا ہوا ہے، وہ مزید آگے پڑھنا چاہتی تھی لیکن گھر والے نہیں چاہتے تھے اس لیے وہ گھر سے جانا چاہتی تھی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس نے پولیس کو مزید بتایا کہ مراد اس کے پاس دو سال سے پڑھتا تھا، مراد کی عمر 12 سال ہے لیکن دیکھنے میں بڑا لگتا ہے اس لیے اس نے مراد کو ذہنی طور پر تیار کیا کہ وہ اس شہر سے دور کہیں چلتے ہیں۔

15 اکتوبر کو استانی نے گھر سے دوہزار روپے لیے اور اپنی بہن کا موبائل فون ساتھ لے کر مراد کے ساتھ صبح سویرے گھر سے چلی گئی۔ دونوں نواں کوٹ سے بھاٹی پہنچے اور رات تک داتا دربار، شاہی قلعہ اور اقبال پارک پھرتے رہے۔ دونوں رات گئے بس پر جڑانوالہ چلے گئے اور وہاں ایک مدرسے میں رہنے لگ گئے۔ 

ایس پی انوسٹی گیشن عبدالوہاب نے بتایا کہ ملزمہ استانی کو اس کی بہن کے موبائل فون سے ٹریس کیا گیا، ملزمہ کے گھروالوں نے وقوعہ کے دو روز بعد ہی موبائل سم بند کروا دی تھی، لیکن اس دوران ملزمہ نے جڑانوالہ مدرسے کی پرنسپل سے اس نمبر سے بات کی تھی جہاں سے پولیس کو مدد ملی۔

پولیس ذرائع کے مطابق دونوں فریقین کے گھر والے ایک دوسرے پر نالاں تھے، پولیس کی موجودگی میں مراد کو اس کے گھر والوں کے حوالے کر دیا گیا اور استانی کو بھی ضمانت کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔ 

مراد کی والدہ نے انوسٹی گیشن پولیس کو بتایا کہ طالب علم اور استانی کا اتنے دن تک گھر سے باہر رہنا دونوں گھروں کے لیے باعث شرمندگی ہے لہٰذا

 دونوں گھروں کے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ مدعی اپنا مقدمہ واپس لے کر ان دونوں کا نکاح کروا دیں گے اور مراد کے تعلیم مکمل کرکے برسرروزگار ہونے کے بعد رخصتی کردی جائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان