پی ٹی آئی سیاسی بحران سے کیسے نمٹے؟

وزیر اعظم کے لیے یہ ایک بڑا موقع ہے جس میں وہ اپنی قائدانہ اور مدبرانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور اپنے ذاتی عناد اور غم و غصے کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہوئے ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے سیاسی مذاکرات کا آغاز کریں۔

یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

اس وقت جب کہ بھارت جموں و کشمیر میں اپنی گرفت مزید مضبوط کرتے ہوئے نئے قوانین کے ذریعے غیرکشمیریوں کو جائیدادیں اور زمینیں خریدنے کے حقوق دے رہا ہے اور امریکہ کے ساتھ ایک اہم دفاعی معاہدے میں داخل ہو رہا ہے، پاکستان ایک خطرناک سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار ہے۔

پاکستانی حکومت ان بقائی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے ان کوششوں میں مصروف ہے کہ کیسے اپوزیشن جماعتوں کی، جو کہ تقریبا 65 فیصد آبادی کی نمائندہ ہیں، پاکستان سے وفاداری کو مشکوک بناتے ہوئے قوم کو دو متصادم گروہوں میں تقسیم کر دے۔ ترجمانوں کی فوج ظفر موج صبح سے شام قومی رہنماؤں کے لیے غداری کے فتوے جاری کر رہی ہے۔

وزیر اعظم ایک مدبر سیاستدان کا کردار ادا کرنے کی بجائے اس بھڑکتی ہوئی آگ پر مزید تیل چھڑک رہے ہیں۔ یہ صورت حال زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی اور اگر جلد کسی بھی شکل میں مکالمے کا آغاز اور اصلاحی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ملک ایک ایسے بحران میں داخل ہو سکتا ہے جس پر شاید طاقتور ادارے اپنی ساری عسکری قوت اور ہر جگہ موجودگی کے باوجود بھی قابو نہ پا سکیں۔ اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کم کرنے اور سیاسی بحران سے نکلنے کے لیے حکومت کو فوری سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم کے لیے یہ ایک بڑا موقع ہے جس میں وہ اپنی قائدانہ اور مدبرانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور اپنے ذاتی عناد اور غم و غصے کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہوئے ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے سیاسی مذاکرات کا آغاز کریں۔ اس کی ابتدا درج ذیل اقدامات سے کی جا سکتی ہے۔ چونکہ اپوزیشن کے اگلے جلسے میں تقریبا 20 دن باقی ہیں تو ان اقدامات یا ان کی شروعات سے سیاسی درجہ حرارت میں کافی کمی لائی جا سکتی ہے۔

منفی سیاسی حدت کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت، اپوزیشن کے ساتھ مصالحانہ رویہ اختیار کرے اور اس کی ابتدا پارلیمان کی کارروائی سے شروع کی جا سکتی ہے۔ عموما حکومتیں پارلیمان میں مصالحانہ کردار ادا کرتی ہیں اور اپوزیشن شوروغوغا کرتی ہیں۔ مگر ہماری پارلیمان میں حکومت نے اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔

بعض وزرا کی ٹیم روزانہ کی بنیاد پر اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے رکیک حملے کر رہے ہوتے ہیں جس سے حزب اختلاف کو مزید مشتعل کیا جاتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں ایسا حکومتی رویہ کم  ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ ایک مصالحانہ قدم جس میں اپوزیشن پر بلاوجہ اشتعال انگیز تنقید کا خاتمہ شامل ہو، پارلیمان کی کارروائی میں تہذیب کا عنصر لا سکتا ہے اور اپوزیشن کے لیے حکومت کو لعن طعن کرنے کے لیے کم مواد مہیا کرے گا۔

حکومتی ترجمانوں کی فوج 24 گھنٹے اپوزیشن کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ لگائے رکھتی ہے۔ اس سلسلے کو فوری طور پر بند کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو احساس ہونا چاہیے کہ اس کی پچھلی 26 ماہ کی حکمرانی میں عوام ان کا بدعنوانی کے بارے میں روزانہ کی بنیاد پر واویلے سے تنگ آ چکے ہیں اور انہیں اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ شاید اس حکومت میں عوام کے مسائل کا کوئی حل اور صلاحیت ہی نہیں اور بدعنوانی کا اس عرصے کے بعد بھی رونا دھونا لوگوں کی توجہ خوفناک معاشی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی سے ہٹانے پر ہے۔

ان ترجمانوں کی روزانہ کی پریس کانفرنسوں اور آٹھ بجے کے بعد ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اپوزیشن پر تنقید کے سلسلے میں کمی کرنے سے سیاسی درجہ حرارت کو نیچے لایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح حکومت کو سوشل میڈیا پر ان کی پارٹی کی طرف سے گرما گرمی اور سخت زبان استعمال کرنے سے بھی پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔

احتساب کے عمل کو جاری رہنا چاہیے لیکن نیب کے معاملات میں حکومتی دخل اندازی کا تصور اب عوام کے ذہن میں جڑ پکڑتا جا رہا ہے۔ صرف اپوزیشن کو مسلسل نشانے پر رکھنے سے نیب کی اپنی شہرت بھی داغ دار ہوئی ہے۔ نیب چیئرمین کی شرمناک ویڈیوز اور سابق چیف جسٹس کھوسہ کا تبصرہ جس میں انہوں نے کہا کہ نیب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس ادارے کی نام نہاد آزادی اور غیر جانبداری مشکوک ہوچکی ہے۔

عوام میں اس ادارے پر اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے موجودہ متنازع اور منتقم مزاج چیئرمین کو آئینی طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے تبدیل کر دیا جائے۔ شہزاد اکبر کو نیب کواس کے قوانین کے مطابق آزادانہ طور پر کام کرنے دینا چاہیے اور روزانہ کی بنیاد پر مبینہ بدعنوانیوں کے کاغذات ٹی وی سکرینوں پر لہرانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

نیب کو بغیر کسی دباؤ اور حکومتی اور دیگر اداروں کی مداخلت کے بغیر کام کرنے دیا جانا چاہیے۔ اس کے بیشتر اہلکار جو کہ سیاسی طور پر داغ دار ہیں انہیں اپنی ذمہ داریوں سے فارغ کر دینا چاہیے مثلا ڈی جی نیب لاہور ایک متنازع شخصیت ہیں اور نیب کے معاملات میں سیاسی بیان بازیاں بھی کرتے رہے ہیں۔

اپنی 2018 کی فتح کو انتخابی دھاندلی کے داغوں سے دھلوانے کے لیے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان میں اس ماہ ہونے والے انتخابات کے تقدس کو یقینی بنایا جائے۔ ان انتخابات  کو صرف اور صرف الیکشن کمیشن منعقد کرائے اور اس میں کسی بھی عسکری ادارے کی وابستگی نہیں ہونی چاہیے۔

مہنگائی سے پسے عوام کے غیض و غضب سے لگتا ہے کہ شاید منصفانہ انتخابات کی صورت میں پی ٹی آئی آئی نہ جیت سکے۔ ایسی انتخابی پسپائی کسی حکومت کے اقتدار کے وسط میں کوئی اچھمبے کی بات نہیں ہوتی۔ اگر پی ٹی آئی انتخاب ہار بھی جاتی ہے تو یہ ہار انتخابی عمل کے تقدس پر ایک مہر ثبت کر دیے گی اور اپوزیشن کے 2018 کے انتخاب میں دھاندلی کے دعوے کو بھی کچھ حد تک زائل کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ اس سے پی ٹی آئی یہ تاثر بھی قائم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے کہ 2018 کی مبینہ دھاندلی کی سازش میں وہ ملوث نہیں تھی۔

حکومتی وزرا اور ترجمانوں کو ہر معاملات میں فوج کا خود ساختہ ترجمان بننے اور بےجا بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ادارے کی وابستگی کے بارے میں شکوک پیدا ہوتے ہیں بلکہ اس تصور کو بھی تقویت ملتی ہے کہ یہ ایک کٹھ پتلی حکومت ہے جس کی ڈوریں پارلیمان سے نہیں بلکہ کسی اور جگہ سے ہلائی جا رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر اپوزیشن کو فوج کے مبینہ سیاسی کردار پر کوئی تحفظات ہیں تو آئی ایس پی آر کو ان تحفظات کے بارے میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔ فوج کے مبینہ سیاسی کردار پر بحث کرنا کسی طرح بھی ملک دشمنی کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ یہ پاکستان میں جمہوریت کو استحکام دینے اور آئین کی بالادستی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں آگے بڑھ کر جی ایچ کیو کو مشورہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے سیاسی معاملات میں دخل اندازی کے تصور کو زائل کرے یا مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات لیے جائیں۔

حکومت اور فوج کے تعلقات پیشہ ورانہ بنیادوں پر ہونے چاہیں نہ کہ انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ اسی طرح اپوزیشن کے ساتھ کسی بھی مذاکرات کی ابتدا سیاسی قیادت کو ہی کرنی چاہیے نہ کہ اس سلسلے میں فوجی قیادت کو استعمال کیا جائے۔

اپوزیشن کا بیانیہ بڑھتی ہوئی ناقابل یقین مہنگائی کی وجہ سے بھی عوام میں مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی کے اس طوفان کو حکومت روکنے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے۔ اس لیے اپوزیشن کو ہر وقت لتاڑنے کی بجائے حکومت کی ساری توجہ مہنگائی کو روکنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ آٹا اور چینی کے بحران کے ذمہ داروں کے خلاف ابھی تک کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی۔ ان کے خلاف اقدامات سے اس لہر پر کچھ حد تک قابو پایا جا سکتا ہے اور عوام کے غم و غصے میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے۔ مہنگائی میں کمی سے اپوزیشن کے لیے عوام کو حکومت کے خلاف کسی فیصلہ کن تحریک کے لیے میدان میں اتارنے میں کافی مشکل پیش ہو سکتی ہے۔

اپوزیشن کے ساتھ مکالمہ کرنے کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کا اعتماد بھی بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ بیوروکریسی کا اعتماد اس وقت انتہائی نچلے درجے پر ہے اور چند حالیہ اقدامات کی جن میں کچھ وفاقی سیکریٹریز کے خلاف ریفرنس شامل ہیں، وجہ سے ان میں ناصرف مزید بےچینی پھیلی ہے بلکہ کام کرنے کی رفتار تقریبا رک سی گئی ہے۔ کابینہ کے ایک حالیہ اجلاس میں وزرا نے اپنی ذمہ داریوں میں ناکامی اور قیادتی کردار میں کمزوری کا ملبہ بیوروکریسی پر ڈال دیا۔

وزیر اعظم کو بیوروکریسی کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا ورنہ ایک سہمی ہوئی بیوروکریسی کسی طرح بھی حکومت کے ترقیاتی ایجنڈے کی تکمیل میں معاون ثابت نہیں ہو پائے گی۔ بغضِ نواز شریف میں سابق سیکرٹری خارجہ کو انتظامی امور میں حکومت کے احکامات پر عمل کرنے پر ریفرنس میں شامل کرنا کسی طرح بھی بیوروکریسی کے حوصلوں کو بڑھا نہیں سکتا۔

یہ اقدامات حکومت کو موجودہ مشکل حالات سے مکمل طور پر تو نہیں نکال سکتے مگر ان سے سیاسی حدت میں واضح کمی آسکتی ہے۔ اگر حکومت کسی طریقے سے اپوزیشن سے مذاکرات کا آغاز کرے اور اس میں انتخابی اصلاحات اور اداروں کے آئینی کردار کے بارے میں بات چیت کی جائے تو موجودہ بحران کو عارضی طور پر ٹالا جا سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ