کشمیر: نئی امریکی انتظامیہ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا

مسلمان ملکوں پر اب بھی یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ مغربی ممالک یا امریکہ میں حکومتوں یا سربراہوں کے بدلنے سے ان کی وہ پالیسی تبدیل نہیں ہوتی جو انہوں نے مسلم دنیا کے لیے مرتب کی ہوئی ہوتی ہے۔

بیشتر لوگوں کو توقع ہے کہ جو بایڈن کے صدر بننے کی صورت میں کشمیر کے مسئلے پر توجہ مرکوز ہوگی (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


امریکی انتخابی نتائج کا جہاں تمام دنیا کو انتظار رہتا ہے وہیں فلسطین، کشمیر، ایران، پاکستان اور افغانستان کے کروڑوں عوام کی ان انتخابات سے انتہائی دلچسپی ہوتی ہے۔

اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کے چار برس کے دور میں رہنے سے ناصرف امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ دنیا کی امیر ترین جمہوریت مختلف مذاہب، نسل اور فرقوں میں مزید منقسم ہوگئی ہے۔

یہ خیال عام ہے کہ امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں ہی باقی دنیا کا روڈ میپ تیار کیا جاتا ہے اور خاص طور سے جنگ زدہ یا متنازعہ علاقوں میں مستقبل کی نئی سمت کا تعین کیا جاتا ہے۔  نیا سربراہ اپنی سوچ کے مطابق نئی حکمت عملی اختیار کرتا ہے۔

یہ کسی حد تک درست ہوسکتا ہے جس کے اشارے بھارت اور پاکستان کے نقشوں میں ردوبدل کے اس سلسلے سے ملتے ہیں جو سعودی عرب کے کرنسی نوٹوں سے لے کر امریکی انتخابی میپ پر کشمیر کی نئی پوزیشن دکھائی گئی ہے۔ لیکن بعض سیاسی ماہرین اسے ایک ایسا مفروضہ مانتے ہیں کہ جس کی تشہیر امریکی میڈیا، تھنک ٹینکس اور اس سے منسلک تمام ادارے دہائیوں سے کرتے آ رہے ہیں۔

باقی دنیا اس کو آنکھ بند کر کے مانتی رہی ہے مگر حقیقت میں پس پردہ اس ملک کے پالیسی ساز ادارے ہیں جو دہائیوں پہلے دوسرے ملکوں کے بارے میں اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرتے ہیں اور صدر یا سربراہ اس پالیسی میں معمولی ردوبدل کر کے اس بات کی یقین دہانی کرتے ہیں کہ ملک کے مفادات محفوظ ہیں۔ باقی دنیا اس مفروضے کے سہارے چلتی ہے کہ نئے سربراہ کے آنے سے خارجہ پالیسی یکسر تبدیل ہوتی ہے۔ یہ بظاہر صرف ٹرمپ کے دور میں امریکی تاریخ میں پہلی بار محسوس کیا گیا جب انہوں نے اپنے پیش رو اوبامہ کی بعض پالیسیوں کو سرے سے رد کر دیا۔

پچھلے چار برسوں میں امریکہ کی شبیہ متاثر ہونے کا فائدہ چین اٹھا رہا ہے جو ناصرف امریکہ کے سپر پاور ہونے کا اعزاز اس سے چھین رہا ہے بلکہ اس کے دوست ممالک کا دائرہ بھی سمٹتا جا رہا ہے۔

جہاں تک امریکہ کی کشمیر پالیسی کا تعلق ہے میرے خیال میں امریکہ کی کشمیر پر کبھی کوئی مخصوص پالیسی نہیں رہی ہے وہ چاہیے ریپلکنز اقتدار میں تھے یا ڈیموکریٹس، حالانکہ 1947 کے بعد پاکستان نے اپنی سلامتی کے پیش نظر امریکہ کے دامن کو دونوں ہاتھوں سے تھامے رکھا۔ چند برس پہلے تک وہ اس کے الٹے سیدھے کام کرتا رہا کہ جس کی وجہ سے اس کے ہزاروں فوجی سمیت بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک ہوگئے یا جس کی وجہ سے سرحدوں پر حالات انتہائی تشویشناک ہوگئے ہیں۔

جب کبھی عالمی سطح پر کشمیر پر پاکستان کے موقف کی بات آئی امریکہ نے کبھی کھل کر اس کا ساتھ نہیں دیا حتی کہ اس وقت بھی جب امریکہ پاکستان کی حمایت کا طلب گار ہے اور افغانستان سے مکمل طور پر فوجی انخلا کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔

امریکہ کو علم ہے کہ کابل میں قیام امن کا عمل پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ہے اور امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کئی بار پاکستان کے چکر لگاتے رہے ہیں مگر مجال ہے کہ  کشمیر پر پاکستان کی حمایت کریں یا کشمیر کو حل کرانے میں بھارت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی مانگ کے باوجود پاکستان کے حق میں کوئی قدم اٹھائیں۔

اس کے برعکس ٹرمپ نے نریندر مودی کو عالمی لیڈر کا اعزاز دیا جس نے بھارت میں 22 کروڑ مسلمانوں اور جموں و کشمیر کے ایک کروڑ بیس لاکھ آبادی پر ہندوتوا پالیسیاں مسلط کر کے انہیں شہریت، جائیداد اور آئینی حقوق سے محروم کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔

انسانی حقوق کے عالمی کارکن جارج لینگھم کہتے ہیں کہ ’ستر کی دہائی میں لاہور میں اسلامی کانفرنس بلا کر بھٹو نے اپنے لیے موت کا وارنٹ لکھوایا تھا اور نہ جانے عمران خان کو کیا سزا بھگتنی ہوگی جو کھل کر مغرب کی مسلم مخالف پالیسیوں کی مذمت کرتے رہتے ہیں۔ مغربی ممالک مسلم دنیا میں نہ تو جمہوریت کو آنے دیتے ہیں اور نہ انہیں اپنے حال پر چھوڑتے ہیں۔‘

امریکی یا مغربی ملکوں کی پالیسیاں دو طرح کی ہیں۔ ایک اسرائیل، بھارت، آسٹریلیا اور غیر مسلم ملکوں کے لیے بنائی جاتی ہیں اور دوسری افغانستان سے لے کر پاکستان، ایران ملائیشیا اور افریقی مسلم ممالک کے لیے۔ ہمارے خطے کے لیے وہ پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں کہ جن سے اندرونی طور پر ایک تو اسے انتشار میں مبتلا کیا جائے اور بیرونی طور پر ان کی امیج کو مسخ کیا جائے۔ اب اس وقت مسلم بلاک پر ’دہشت گردی‘ کا لیبل چسپاں کر کے مسلمانوں کے تئیں نفرت پھیلانے کی مہم چلائی جا رہی ہے اور اس میں فرانس سمیت بیشتر ممالک سبقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بیشتر لوگوں کو توقع ہے کہ جو بایڈن کے صدر بننے کی صورت میں کشمیر کے مسئلے پر توجہ مرکوز ہوگی۔ بایڈن اور کاملہ ہیرس نے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا کئی بار ذکر کیا ہے۔ حقیقت میں دونوں رہنماؤں نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ بھارت نے ایک متنازعہ مسئلے کو پانچ اگست 2019 کے فیصلے سے اس کو مزید پیچیدہ بنایا ہے بلکہ انہوں نے محض مواصلاتی نظام کو بند کرنے پر واویلا کیا۔

امریکی کانگریس میں کئی اجلاس طلب کر کے بعض لوگوں کی بات سنی گئی مگر کیا بعد میں کوئی قرارداد سامنے آئی جس میں بھارت سے یہ فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر امریکی کانگریس سنجیدہ ہوتی تو بھارت پر اس فیصلے کو واپس لینے پر مجبور کیا گیا ہوتا۔ اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی وارننگ دی گئی ہوتی یا اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں کھل کر بھارتی جارحیت کی مذمت کی گئی ہوتی جیسے کہ ایران کے خلاف اکثر ہوتا آ رہا ہے۔ شام کو تباہ کرنے پر قراردادیں پیش کی جاتی رہی ہیں یا پاکستان میں ڈرون حملوں کو جائز قرار دے کر معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ایسا شاید امریکہ کرتا اگر یہ مسلم مملکت کا مسئلہ نہ ہوتا۔

امریکہ نے بھارت کے اس موقف کو خاموشی سے مان لیا کہ آڑیکل 370 کو ہٹانے سے وہ مسلم اکثریت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگا تاکہ ’اسلامی دہشت گردی‘ سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے حالانکہ امریکہ یا دوسرے ملکوں کو جموں کشمیر کے  تنازعے کی تاریخ اور حقائق کا ناصرف بخوبی علم ہے بلکہ ان کے ہی تھنک ٹینکس اور انسانی حقوق کے اداروں نے اس علاقے میں ہو رہی بھارتی جارحیت کا ثبوتوں کے ساتھ حوالہ بھی دیا ہے۔

مسلمان ملکوں پر اب بھی یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ مغربی ممالک یا امریکہ میں حکومتوں یا سربراہوں کے بدلنے سے ان کی وہ پالیسی تبدیل نہیں ہوتی جو انہوں نے مسلم دنیا کے لیے مرتب کی ہوئی ہوتی ہے اور جس کی وساطت سے انہوں نے دنیا کو دو بلاکوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک طرف مسلم بلاک ہے جو اندرونی انتشار کی وجہ سے بھی بکھرا ہوا ہے اور دوسری طرف غیرمسلم بلاک ہے جس کے لیے پالیسیاں وہاں میل کھاتی ہیں جہاں مسلم دنیا شروع ہو جاتی ہے بھلے دوسرے معاملات پر غیرمسلم  بلاک کے بیچ اتفاق نہ ہو۔

پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو شاید دیر سے ہی سہی، اس بات کا ادراک ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ملک امریکہ سے دامن چھڑانے کی فکر میں چین سے مزید قریب ہو رہا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ کوئی ہمدردی تو نہیں رکھتا مگر چونکہ وہ خود امریکی چودراہٹ کو ختم کرنے کے درپے ہے اور وسط ایشیا سے لے کر مغربی ایشیا میں امریکی اثر رسوخ کو ختم کرنے پر روڑ اینڈ بیلٹ منصوبے پر اربوں ڈالرز خرچ کر رہا ہے لہذا پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو مد نظر رکھ کر اس ملک میں سرمایہ کاری پر زور لگا رہا ہے۔

چین کو پاکستان کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی امریکہ کو بھارت کی جن کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدے اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ اس خطے کا امن درہم برہم ہونے کے خطرات اب زیادہ بڑھ گئے ہیں۔

پاکستان کو چین کے قریب آنے میں بھی احتیاط برتنی ہوگی۔ پہلے کشمیر کے مسئلے پر اس کی ٹھوس حمایت حاصل کرنے کی یقین دہانی کرانی ہوگی، ملک کی سرحدوں کو محفوظ  بنانا ہوگا ورنہ شاہراہیں بنا کر کہیں پاکستان کو ہی نگل نہ لے اور اس دور کی یاد تازہ نہ ہو جائے جب انگریز سامراج ایسٹ انڈیا کمپنی کے بہانے جنوبی ایشیا کو ہی نگل گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ